انسولین کے تین کام ہیں:
فوری توانائی:
یہ شوگر اور دیگر کیلوریز خلیات کو فراہم کر کے فوری توانائی فراہم کرتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی :
یہ جگر کو طویل مدتی توانائی کے لیے اضافی مٹھاس کو چربی میں تبدیل کرنے کے لیے کہتا ہے۔
نشوونما :
یہ خلیوں کو بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔
انسولین ہمیں اپنے دوسرے کام کی وجہ سے پریشانی میں ڈال دیتی ہے۔ صرف ایک ہی چیز ہے کہ جو ہمارے ابتدائی آباؤ اجداد کی انسولین کی سطح میں تیزی سے اضافہ کرتی تھی اور وہ تھی پھلوں سے حاصل ہونے والی مٹھاس۔
فرض کریں کہ بہت سارے پھل کھانے کا مطلب ہے کہ یہ موسم گرما کے آخر یا موسم خزاں کے شروع کا وقت ہوتا تھا، اور
انسولین کا اخراج ان کے جگر کو شوگر کو چربی میں تبدیل کرنے کا اشارہ دیتا تھا تاکہ وہ اسے موسم سرما کے لئے محفوظ کر سکیں. آپ کی آرام کرنے کے وقت والی انسولین کی سطح جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی آپ کا جگر “سوچتا ہے” کہ سردیاں آنے والی ہیں اس لیے بہتر ہے کہ زیادہ چربی جمع کرتے رہیں ۔
ہماری خوراک شکر اور اناج سے بھری ہوئی ہے، جو کہ بالکل شکر کی طرح ہی برتاؤ کرتی ہے۔
ہم میں سے اکثر یہ پیغام 24/7 بھیج رہے ہیں، درحقیقت،کوئی بھی میٹھا مادہ، یہاں تک کہ ایک مصنوعی مٹھاس، آپ کے باڈی کمپیوٹر کو بتاتا ہے کہ شکر راستے میں ہے، تو برائے مہربانی انسولین تیار کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی مٹھاس کا وزن کم کرنے والوں کو فائدہ نہیں ہوتا ۔
کیونکہ مصنوعی مٹھاس کا ذائقہ انسولین کی سطح کو بڑھا دیتا ہے جس سے جگر کو شکر کو چربی میں تبدیل کرنے کا سگنل مل جاتا ہے۔
حاصل کلام
ہم جو کھائیں جگر یہ نہ “سوچے” کہ سردیاں آ نیوالی ہیں اس لئے فالتو کیلوریز کو چربی کی شکل میں ذخیرہ کرنا ہے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب کھانے کی اشیاء میں مٹھاس کی مقدار کے بارے میں جانکاری رکھیں۔ مٹھاس کی مقدار جاننے کے لئے گلائسیمک انڈیکس اور گلائسیمک لوڈ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ انڈے ،گوشت میں مٹھاس صفر ہوتی ہے۔ اناجوں میں مٹھاس خالص چینی یا شکر سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
اگر آ پ سوئیٹ ڈش اور پھل چھوڑ کر پھیکی چائے پی کر سمجھ رہے ہیں کہ اب مٹھاس کا معاملہ کنٹرول کر لیا ہے تو اپنے تمام کھانوں کا گلائیسیمک انڈیکس اور لوڈ گوگل پر چیک کرنے کی عادت ڈال لیجئے ۔
آ پکی صحت مشروط ہے آ پکے کھانوں کے انتخاب سے۔ قدرت نے مینو آ پکے سامنے رکھا ہے اس میں سے اپنی میز پر وہی چیزیں رکھنی ہیں جو آ پکو صحت مند رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔