جنوبی وزیرستان میں مقامی نوجوانوں کی جانب سے قائم کیا گیا فری ایجوکیشن سنٹر جو لڑکیوں کو تعلیم سے روشناس کرا رہا ہے

خوف اور دہشت کی فضا میں جنوبی وزیرستان کی تحصیل رغزئی کے نوجوان اپنے گاؤں کے تعلیمی مستقبل کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ وزیرستان کا شمار دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ دہشت گردی اور اس کے خلاف جاری آپریشنز نے اس علاقے میں تعلیم کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

اس پورے عرصے کے دوران وزیرستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو شرپسندوں نے شدید نقصان پہنچایا۔ گزشتہ سال شمالی وزیرستان کی تحصیل شوا کے علاقے درازندہ میں قائم لڑکیوں کے واحد نجی تعلیمی ادارے کو شرپسندوں نے مسمار کردیا تھا جبکہ جنوبی وزیرستان میں زیر تعمیر صوفیا نور پبلک اسکول کو بھی بم سے اڑا دیا گیا تھا۔

ان حالات کے پیشِ نظر پچھلے سال رغزئی کے علاقے ریدور کے نوجوانوں نے علاقہ مکینوں کی مشاورت اور مدد سے ایک فری ایجوکیشن سنٹر قائم کیا تاکہ شرح خواندگی میں بہتری سمیت لڑکوں اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم سے روشناس کرایا جاسکے۔

اٹھارہ ماہ قبل اپنے قیام کے وقت پرائمری کے تین سو طلبہ نے اس سنٹر میں داخلہ لیا، جس میں 180 لڑکے اور 120 لڑکیاں شامل تھیں۔ پاک۔افغان سرحد پر واقع ریدور گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس فری ایجوکیشن سنٹر کے منتظم احسان سحر نے تاشقند اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کا واحد مقصد اپنے علاقے کے لڑکوں اور خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔‘

ریدور ایجوکیشن سنٹر نے علاقے میں قائم لڑکوں کے مڈل اسکول کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کے مطابق ان کے ہاں پڑھنے والی بچیاں اس اسکول کے امتحانی نظام کا حصہ ہوتی ہیں جبکہ انہیں سند بھی وہیں سے مل جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ لڑکیاں ہائی اسکولوں میں داخلہ لینے کے قابل ہوجاتی ہیں۔

احسان سحر کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے میں لڑکوں کے لیے ایک مڈل سرکاری اور دو ہائی نجی اسکول موجود ہیں، جس کے بچے ہمارے پاس پڑھنے آتے ہیں، جبکہ لڑکیوں کے لیے یہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ لہٰذا ہم لڑکیوں کو پورا نصاب پڑھاتے ہیں۔‘

وزیرستان کے سرکاری تعلیمی اداروں کو شرپسندوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احسان سحر سمجھتے ہیں کہ ’نجی سیٹ اپ کی وجہ سے انہیں اس طرح کوئی خطرہ اب تک محسوس نہیں ہوا۔ شرپسندوں کو عمومی طور پر سرکاری اداروں سے مسائل ہوتے ہیں۔ ہمارے ادارے کے قیام کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم اسے سرکاری عوامل سے دور رکھنا چاہتے تھے تاکہ تعلیمی تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔‘

ریدور گاؤں میں قریب کوئی 80 گھرانے آباد ہیں۔ یہ ایجوکیشن سنٹر گاؤں کے وسط میں موجود مسجد کے ساتھ متصل حجرے میں قائم ہے جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ جگہیں مختص کی گئی ہیں۔ احسان سحر بتاتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں موجود تعداد کوئی ڈھائی سو کے قریب ہے جس میں پچاس فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ انہیں نصابی کتابوں کے ساتھ لسانیات اور قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے۔‘

اس سنٹر میں چار افراد پڑھانے کی ذمہ داری سرانجام دیتے ہیں جبکہ گاؤں کے نوجوان ہی اس کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔ احسان سحر کے مطابق ابتدا میں اس سنٹر میں کلاس ہفتم تک کا نصاب پڑھایا جاتا تھا جبکہ ابھی انہوں نے کلاس ہشتم کے طلبہ بھی شامل کرلیے ہیں۔

ریدور ایجوکیشن سنٹر ایک آزاد تعلیمی ادارہ ہے جو نوجوانوں کی ہمت، علاقہ مکینوں کی معاونت اور والدین کے اعتماد کے ساتھ اپنے قیام کے دو سال مکمل کرنے والا ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لوگ تعلیمی مستقبل کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں