آج سے کچھ عرصہ قبل پنجاب کے ضلع جھنگ سے ایک نوجوان لڑکی رات گئے خواتین سیفٹی ایپ کے ذریعےپنجاب پولیس سے رابطہ کرکے شکایت کرتی ہیں کہ اہل خانہ زبردستی اس کی شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ایک ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن نے فوری طور پر پتہ معلوم کرکےاس تک رسائی کو ممکن بنایا ۔
لڑکی کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اہل خانہ کو اس کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے قائل کیا گیا جبکہ بعد ازاں پنجاب پولیس نے مسلسل رابطے میں رہ کر لڑکی کی خیریت اور تعلیم کے تسلسل کو بھی یقینی بنایا۔
اسی طرح ایک اور اہم کیس میں لاہور سے یونیورسٹی کی طلبہ نے ورچول ویمن پولیس اسٹیشن کو رپورٹ کیا کہ وہ پرائیویٹ ٹیکسی میں سوار تھی جب اسے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن نے فوری کارروائی کی، کیمروں کی مدد سے لڑکی کی لوکیشن کا پتا چلایا ،پولیس کو موقع پر روانہ کیا اورملزم کو گرفتار کرلیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ خواتین پر مشتمل پنجاب پولیس کا یہ ورچوئل پولیس اسٹیشن گھربیٹھی خواتین کو تحفظ کیسے فراہم کرتاہے؟
ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی عمر خیام نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن بظاہر ایک “خیالی تصور” محسوس ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک جدید ڈیجیٹل سسٹم ہے جو خواتین کو فوری، محفوظ اور رازداری پر مبنی پولیس معاونت فراہم کرتا ہے۔’
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے 22 اپریل 2024 کو پاکستان کے پہلے ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن “میری آواز، مریم نواز” کا افتتاح کیا، جس کے تحت آئی ٹی سے وابستہ خواتین پولیس افسران کو تعینات کیا گیا، جو 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں ۔

عمر خیام کے مطابق خواتین کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں 15 پر کال کرکے صرف 2 دباکر براہِ راست ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ اس سہولت کی بدولت اب خواتین کو غیر ضروری طور پر تھانوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے اور وہ اپنی شناخت صیغہ راز میں رکھتے ہوئے مکمل اعتماد کے ساتھ اپنا مسئلہ شیئر کر سکتی ہیں۔
اس پولیس اسٹیشن کے کام کے طریقہ کار کے مطابق جب بھی کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے توپولیس فوری طور پر ردعمل دیتی ہے۔خواتین پولیس کمیونیکیشن آفیسر شکایت کی تفصیلات لیتی ہیں اور متعلقہ اداروں سے رابطہ کرتی ہیں۔ شکایت کی درستگی جانچنے کے لیے شواہد اور متعلقہ معلومات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اگر خاتون اپنی شناخت ظاہر نہ کرنا چاہیں تو انہیں اس بات کا حق حاصل ہوتا ہے۔
عمر خیام نے اعداد وشمار کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ’اس پلیٹ فارم نے اپنے پہلے ہی سال میں 3 لاکھ 80 ہزار سے زائد خواتین کو رہنمائی فراہم کی، جبکہ 44 ہزار سے زائد کیسز میں ایف آئی آر کے اندراج میں معاونت کی گئی۔اس کے قیام سے قبل روزانہ اوسطاً 150 سے 200 کالز موصول ہوتی تھیں، تاہم ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن نے خواتین کے اعتماد کو بحال کیا، جس کے بعد اب روزانہ تقریباً 1700 کے قریب کالز موصول ہو رہی ہیں۔’
‘ہراسانی، گھریلو تشدد، سائبر کرائم اور دیگر سماجی مسائل سے متعلق شکایات موصول ہونے پر خواتین افسران تین شفٹوں میں مسلسل چھوبیس گھنٹے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ‘
عمر خیام کہتے ہیں کہ ‘پچھلے ایک سال میں سب سے زیادہ شکایات گھریلو تشدد اور سائبر کرائم سے متعلق رپورٹ ہوئیں۔ اس میں بھی گھریلو تشدد اور لڑائی جھگڑے بارے شکایات زیادہ تھی۔’
پنجاب پولیس سے وابستہ اقصی فیاض نے ورچوئل پولیس اسٹیشن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس وقت انچارج کے طوراس کی سرپرستی کر رہی ہیں۔
تاشقنداردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’خواتین اپنی شکایات درج کروانے میں اکثر خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتی تھیں اور تھانوں کے چکر لگانے کی وجہ سے پریشان رہتی تھیں۔ انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، تاکہ خواتین گھر بیٹھے اپنے مسائل براہِ راست خواتین افسران کو بتا سکیں۔ اگر وہ کال نہ کر سکیں تو ویمن سیفٹی ایپ کے ذریعے بھی رابطہ ممکن ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ’ مجھے اس منصوبے کی منصوبہ بندی، ٹیم کی تربیت اور سسٹم کی تشکیل میں بطور انچارج اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا، جو میرے لیے ایک اعزاز ہے کیونکہ میں خود بھی ایک خاتون ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ ہر عورت کو بروقت انصاف اور مدد حاصل ہو۔’
صرف ایک سال میں لاکھوں خواتین کا رابطہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پلیٹ فارم وقت کی اہم ضرورت تھا۔
اقصی فیاض نے بتایا کہ’ آئندہ اس نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ہم اس کی رسائی بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، سیمینارز اور آگاہی مہمات کے ذریعے کالجز اور یونیورسٹیز تک جا کر خواتین کو اس سروس سے متعلق آگاہ کیا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی مدد سے بھی اس پیغام کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے۔’