امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ٹام باراک نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے شام کی نئی قیادت کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سابق باغی جنگجوؤں کو قومی فوج میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ یہ عمل شفافیت سے انجام دیا جائے۔
ٹام باراک، جو ترکیہ میں امریکی سفیر بھی ہیں اور گزشتہ ماہ ٹرمپ کے شام کے خصوصی ایلچی مقرر ہوئے تھے، نے مزید کہا کہ میرے خیال میں ایک سمجھوتہ اور شفافیت موجود ہے۔ جنگجوؤں، جن میں سے بہت سے شامی نئی انتظامیہ کے بہت وفادار ہیں، کو ریاستی منصوبے کے اندر رکھنا انہیں الگ کرنے سے بہتر ہے۔
شام کی وزارت دفاع کے قریبی دو ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ شامی صدر احمد الشرع اور ان کے قریبی حلقے نے مغربی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو فوج میں شامل کرنا انہیں چھوڑنے سے زیادہ حفاظتی اعتبار سے کم خطرناک ہے۔ انہیں چھوڑنے سے وہ القاعدہ یا داعش کی جانب جا سکتے ہیں۔
شام کے دفاعی حکام نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت تقریباً 3500 غیر ملکی جنگجو، جن میں زیادہ تر چین اور ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھنے والے ایغور شامل ہیں، شامی فوج کی نئی تشکیل شدہ 84 ویں ڈویژن میں شامل ہوں گے۔ اس ڈویژن میں شامی بھی شامل ہوں گے۔