وہ ابھی گاڑی کو پارک کرنے کے لئے اپنے گرد وپیش کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ ٹریفک پولیس کا ہرکارہ آن دھمکا۔ گاڑی غلط پارک کرنے کی وجہ سے فردِ جرم سنانی شروع کردی۔ بتایا گیا کہ ابھی تو گاڑی ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں کی اور یہ بھی کہ گاڑی بند کر کے نیچے نہیں اتر گئے۔ اور یہ بھی معلوم کیا گیا کہ پیلی پٹی کہاں پر ہے؟جواب سے پتہ چلا کہ یہاں چلنے والی گاڑیوں کے مسلسل جوتے رگڑے جانے کی وجہ سے پیلی لکیر اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ فردِ جرم کو مسترد کئے جانے کی کوئی دلیل کارگر ثابت ہونے والی نہ تھی۔ آخری کوشش یہ کی گئی کہ ساتھ ہی اور اُسی پوزیشن پر کھڑی مزید دو گاڑیوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یہ قانون سے کیوں بالا تر ہیں؟ ان کے بارے میں جواب غیر ضروری تصور کیا گیا، ویسے بھی ہر کوئی اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ ان میں سے ایک گاڑی خاتون چلا رہی تھیں، وہ اپنے بچوں کے لئے غبارے خرید رہی تھیں، اُن کے پاس بھی یقیناً کوئی ایسی گیدڑ سنگھی تھی تو پولیس اہلکار کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہی۔ دوسری گاڑی والے صاحب نے اپنا کارڈ دکھایا، جس کے دیکھنے کے بعد پولیس والے بھائی کو مزید کسی دلیل وغیرہ کی ضرورت نہ رہی۔
ّّجرمٗٗ ثابت ہونے والی جس گاڑی کا یہاں ذکر ہو رہا ہے، وہ صاحب محمد بن سعود یونیورسٹی ، ریاض (سعودی عرب) کے فارغ التحصیل ہیں ، سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور کے سلسلے میں پاکستان آفس میں ہی سعودی عرب کی طرف سے ملازمت کر رہے ہیں، صاحبِ مطالعہ عالمِ دین ہیں، ہمہ وقت اسی مقصد کے لئے سفر میں اور درس و تدریس میں مصروف رہتے ہیں۔ قانون کی نگاہ میں تو یقیناً سب برابر ہیں، کیونکہ سنا ہے قانون اندھا ہوتا ہے، وہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہے۔اُس کی نگاہ میں ایک ان پڑھ اور ایک پی ایچ ڈی اور سعودیہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا سب برابر ہیں۔ پانچ ہزار روپے جرمانہ کرکے پنجاب کے سرکاری خزانے کی مزید رونق بڑھادی گئی۔یہ اندھے قانون والا محاورہ شاید اپنی طبعی عمر مکمل کر چکا ہے، کیونکہ اب جدید زمانے میں قانون نے بھی ترقی کرکے کچھ بینائی حاصل کر لی ہے۔ اب قانون بہت باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیتا اور احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔ غبارے خریدنے والی خاتون میں تو نہ جانے کون سی خوبی تھی، یا استثنا کی کیا وجہ تھی، یا کارڈ دکھانے والے صاحب کے پاس کس ادارے کا کارڈ تھا جسے دیکھتے ہیں ٹریفک اہلکار کے اوساں خطا ہو گئے؟ اگر قانون واقعی اندھا ہوتا تو تینوں سے یکساں سلوک کرتا۔
جہاں تک قانون سے آشنائی کا تصور ہے تو جو صاحب سعودی عرب میں تعلیم حاصل کر چکا ہے، اب بھی اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے میں ہی ملازم ہے، دینی مدرسہ سے لے کر یونیورسٹیوں کی حد تک درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے، تو قانون سے کچھ تو واقف ہوگا۔ دو باتیں اُن کے ذہن میں بُری طرح کھٹک رہی تھیں، ایک یہ کہ ّّجرمٗٗ سرزد ہونے سے قبل ہی سزا سنا دی گئی، گاڑی کو رُکتا دیکھ کر ہرکارہ صاحب سیٹی بجاتے، گاڑی والے کو متوجہ کرتے اور اشارے سے ہی بتا دیتے کہ یہاں گاڑی کھڑی کرنی منع ہے۔ پھر بھی اگر کوئی صاحب غلط جگہ پر گاڑی کھڑی کردیں تو جرمانہ بنتا تھا۔ انہیں دوسرا افسوس انہیں یہ ہوا کہ ان کے سامنے ہی اسی قسم کے جرم میں مزید دو لوگ ملوث تھے، مگر وہ گرفت میں آنے سے محفوظ رہے۔
یہ تو جرمانوں کی دیگ سے ایک چاول کی کہانی ہے۔ جرمانہ تو ہوگا۔ مگر کیا لوگوں کو گاڑیاں کھڑی کرنے کے لئے متبادل جگہ فراہم کی جاتی ہے؟ کیا کسی جگہ نئے آنے والے کو رہنمائی دینے کی بجائے پانچ ہزار کا ٹیکہ لگا دینا جائز عمل ہے؟ پارکنگ کی کہانی یہ ہے کہ ہمارے شہر میں بہت ہی مرکزی مقام پر پارکنگ کا وسیع انتظام ہوتا تھا۔ پھر کسی ّّسرکٹےٗٗ انتظامی افسر کو خیال آیا کہ کچھ انوکھا کام کیا جائے۔ انہوں نے ٹرین کا ایک ڈبہ حاصل کیا اور پارکنگ والی جگہ پر پلیٹ فارم بنا کر وہاں نصب کر دیا، ساتھ ہی مزید دو تین کمرے بنا کر چائے اور فاسٹ فوڈ کا اہتمام کر دیا۔ خیال یہی تھا کہ منفرد چائے خانے پر لوگ جائیں گے، چائے بھی پئیں گے اور تصویریں بھی بنائیں گے، کاروبار بہرحال نہ چل سکا۔ ٹھیکہ زیادہ تھا یا لوگوں کو ذائقہ اچھا نہیں لگا، جو بھی ہوا نظام فیل ہوگیا، جیسے کسی نحوست کے مارے ریلوے کے وزیر نے ریلوے کامحکمہ ہی تباہ کر دیا تھا، وہ تو بھلا ہو خواجہ سعد رفیق کا ، جنہوں نے اپنے دورِ وزارت میں اس مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالی۔ شاید یہاں بھی ریلوے کی طرح ہی ناکامی ہوئی۔ افسر تو تبدیل ہو کر کسی اور ضلع یا ڈویژن کے عوام کے آقا بن بیٹھے ہوں گے اور وہاں پر کسی پارکنگ والی جگہ پر کوئی اور منفرد، بے مقصد اور فضول تجربہ کر رہے ہوں گے۔ مگر ہمارے ہاں بہت اہم پارکنگ کی ایسی تیسی پھیر گئے، نئے آنے والے نے نئی پارکنگ کا وعدہ کیا، مگر ایفا نہ ہو سکا۔ متبادل ایسے ہی نہیں مل جاتا۔ پلازوں، تجارت کے مراکز اور بازاروں کے باہر یا ارد گرد پارکنگ کے انتظامات نہایت محدود اور کم ہوتے ہیں۔ اوپر سے پنجاب حکومت کے نئے قوانین کی روشنی میں ٹریفک پولیس والے کروڑوں روپے کے ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے اپنے حواس کھو چکے ہوتے ہیں۔
بھاری جرمانوں کا یہ کاروبار جاری رہے گا، عوام میں اگر حکومت کا مطلوبہ شعور آبھی جائے تب بھی جرمانے ہوتے رہیں گے، کیونکہ جب پارکنگ کے لئے جگہ ہی نہیں ہوگی تو چالان تو ہوگا۔ ہمارے حکمران جب باہر کے ممالک جاتے ہیں تو وہاں کے معاملات کو دیکھ کر بہت جذباتی ہوتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ملک میں بھی ان قوانین وغیرہ کا نفاذ ہونا چاہیے، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جرمانوں ، ہتھکڑیوں، حوالاتوں سے قبل آگاہی بھی ہوتی ہے، مان لیا قوم کو بتا دیا تھا، مگر سہولیات کا بندوبست کس کے ذمے ہے؟ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حکمران باہر سے آ کر عوام پر قوانین نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں کے حکمران کس قدر کم خرچ اور نسبتاً سادگی سے اپنے نظامِ حکومت چلاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اپنے حکمران اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے آمدنی کے امکانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ریکوری کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ چالان تو ہوگا، چاہے قصور کم ہو، یا نہ بھی ہو، کوئی خامی تلاش کر ہی لی جائے گی، کہ ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ یہ سوال الگ ہے کہ قوم کی جیبیں کاٹ کر نکالے جانے والے کروڑوں روپے جاتے کہاں ہیں؟ حکمرانوں کے اخراجات اس قدر ہیں کہ لاکھوں روپے تو اُن کے ّیہاں سے وہاں ٗ جانے تک ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں نے ظلم کا نظام یوں قائم کر رکھا ہے، کہ عوام کو سہولت بھی کوئی نہ دی جائے اور اُس کے ہرکارے بدمعاشوں کی طرح سڑکوں پر کھڑے ہو کر قانون کے نام پر لوگوں کو لوٹتے رہیں