پاکستانی کاروبار کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے برطانیہ کا 37 ارب فنڈ  کا اعلان

برطانیہ کے وزیر برائے مشرقِ وسطیٰ، پاکستان اور افغانستان ،  ہمیش فالکنر نے پاکستان کے دو روزہ دورے کے موقع پر نئے  موسمیاتی فنڈنگ پروگرام  کا اعلان کیا، جس میں دوطرفہ شراکت داری کو مضبوط بنانے اور مشترکہ اقدار کو فروغ دینے پر توجہ دی گئی۔

ہمیش فالکنر کا کہنا تھا کہ، اعلان کردہ فنانس پروگرام، پاکستان میں نئی موسمیاتی ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی اور نجی شعبے کی مدد کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرے گا۔ اس موقع پر فالکنر نے پاکستان کیلئے £108 ملین (37 بلین روپے) مالیت کے ایک نئے موسمیاتی فنانس پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ، برطانیہ اور پاکستان موجودہ خطرات سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں،  یہی وجہ ہے کہ، ہم پاکستانی عوام  کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر مقامی کاروباروں  میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

برطانوی وزیر کی جانب سے یہ اعلان ایف سی ڈی او (FCDO) کی رپورٹ آنے کے بعد کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ، پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اگلے 25 سالوں میں تخمینہ لاگت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق عالمی خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنی نوعیت کا یہ پہلا پروگرام انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC) کے ساتھ شراکت میں پیش کیا جائے گا، جو مقامی کاروباروں میں سرمایہ کاری کرے گا  تاکہ، وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار اہم ٹیکنالوجیز حاصل کر سکیں۔ اس پروگرام سے پاکستان میں تقریبا ایک لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی۔

یہ پروگرام برطانیہ کے کلائمیٹ انویسٹمنٹ فنڈ پاکستان پروگرام (سی آئی ایف پاک) کا ایک مرکزی حصہ ہے، جو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی  اور  عالمی خطروں سے نمٹنے کے لیے مقامی کاروباروں کو مالیاتی مدد فراہم کرتا ہے۔

رواں ماہ، آذربائیجان کے شہر، باکو میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے امیر ممالک کے سربراہان سے اپیل کی تھی کہ، وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان سمیت تمام ترقی پزیر ممالک کی مدد کریں۔

 ماحولیاتی آلودگی، جو موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے، پھیلانے میں پاکستان کا حصہ صرف %0.1 ہے جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے 5 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں