ٹرمپ کی غزہ میں جنگ بندی مذاکرات میں تیزی لانے کی اپیل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری بات چیت کو تیز کیا جانا چاہیے تاکہ مزید جانی نقصان روکا جا سکے۔ قاہرہ میں ہونے والے یہ مذاکرات اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ طور پر جاری ہیں، جن میں ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ زیرِ غور ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور پہلا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تاخیر ہوئی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

حماس نے امریکی امن منصوبے کے کچھ نکات پر رضامندی ظاہر کی ہے، جن میں یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی انتظامیہ کو ایک عبوری فلسطینی کمیٹی کے سپرد کرنا شامل ہے۔ تاہم گروپ نے ہتھیار ڈالنے اور اپنے سیاسی کردار سے متعلق معاملات پر کوئی واضح مؤقف نہیں دیا۔

دوسری جانب اسرائیل نے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود غزہ میں بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 65 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ کچھ علاقوں میں کارروائیاں محدود کی گئی ہیں، تاہم جنگ بندی تاحال نافذ نہیں کی گئی۔

امریکی امن منصوبے میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کی جزوی واپسی اور غزہ کی عبوری انتظامیہ کی تشکیل شامل ہے۔ مذاکرات میں امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر، خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، اور قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی شریک ہیں۔ اسرائیل کی نمائندگی رن ڈرمیر کر رہے ہیں جبکہ حماس کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے ہیں۔

عرب ممالک نے حماس کے لچکدار رویے کو سراہتے ہوئے ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت کی ہے۔ مصر، سعودی عرب، قطر، ترکی، اردن، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے بمباری فوری طور پر روکنے اور مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا۔

غزہ میں انسانی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 2 ہزار 700 خاندان مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں، جن میں ایک ہزار سے زائد بچے، طبی عملہ، صحافی اور امدادی کارکن شامل ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں