موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ ہی برطانیہ میں فلو کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس کے باعث نیشنل ہیلتھ سروس پر شدید دباؤ پڑ گیا ہے۔ فلو کے اس تیز پھیلاؤ کو بعض حلقوں میں ’’سپر فلو‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ اصطلاح سائنسی نہیں اور عوام کو گمراہ کر سکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق سپر فلو کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ موسمی فلو کی ایک مضبوط لہر ہے جو معمول سے پہلے سامنے آ گئی ہے۔ اگرچہ کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن انفیکشن کی شدت اب بھی ایک عام فلو سیزن کی متوقع حد کے اندر ہی ہے۔ البتہ جلد آغاز اور تیز پھیلاؤ نے اس کے اثرات کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال فلو کی لہر موسمِ سرما کے بالکل آغاز میں سامنے آئی، جس کے باعث صحت کے اداروں کو تیاری کا مناسب وقت نہیں مل سکا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس اور ایمبولینس سروسز غیر معمولی دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں، جبکہ ممکنہ طور پر ڈاکٹروں کی ہڑتال نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
طبی تحقیق کے مطابق ہر چار سے پانچ سال بعد فلو وائرس میں نسبتاً بڑی تبدیلیاں آتی ہیں، جو زیادہ شدید فلو سیزن کا باعث بنتی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ موسم بھی اسی سائیکل کا حصہ ہو سکتا ہے، جس کے باعث فلو کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین صحت فلو ویکسین کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں، خاص طور پر بزرگ افراد کے لیے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق فلو ویکسین بزرگوں میں اسپتال میں داخلے کے خطرے کو 30 سے 40 فیصد تک کم کرتی ہے، جو اگرچہ مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتی، مگر شدید بیماری سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچوں میں فلو ویکسین کا اثر زیادہ مؤثر پایا گیا ہے، جہاں اسپتال میں داخلے کے امکانات 70 سے 75 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو دی جانے والی ناک کے ذریعے ویکسین کو ماہرین خاص طور پر مؤثر قرار دیتے ہیں، جبکہ بالغ افراد کو انجیکشن کے ذریعے ویکسین دی جاتی ہے