“علم کا سمندر” بہاولنگر کا نابینا پروفیسر جو 10 کتابوں کا مصنف ہے

رضوان یونس کی عمر ابھی سات سال تھی جب آنکھ میں نور کا پچھلا پردہ متاثر ہوا۔آہستہ آہستہ نظر کمزور ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ ان کے لیے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنا دشوار ہوگیا اور 2009 میں نظر مکمل طور پر غائب ہوگئی۔

ڈاکٹرزنے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ بچوں کے لیے ذہنی و جسمانی نشونماءکے لیے استعمال ہونے والا سیرپ ہے، جس کے ضمنی اثرات نے آنکھ کی بینائی سے محروم کیا۔ علاج کے لیے ہر حد تک کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔دراصل ریٹنا سے کارنیا تک پیغام رسانی کا سلسلہ معطل ہوا وگرنہ اس سلسلے میں آنکھ بھی نئی لگ جاتی ، لیکن اس کے لیے ریٹنا کے درست ہونے کی شرط لازم تھی۔

یونس رضوان نے بینائی سےمحرومی کے باوجود خصوصی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ عام طلبہ کے ساتھ پڑھائی کے مرحلے طے کیے۔ رضوان یونس اس کا سہرا اپنے استادوں کے سر باندھتا ہے جو ان کے بقول ہر دم حوصلہ افزائی کرتے گئے۔

استادوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے تشکر کی کیفیت دیدنی تھی۔ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کے اکثر اساتذہ کے نام انہوں نے خصوصی شکریے کے ساتھ گنوائے جنہوں نے ایک نابینا طالب علم کو قوت بینائی کی کمی نہیں ہونے دی اور انہیں ایک مصنف کی صورت میں دنیا کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کردیا۔

رضوان یونس صحیح معنوں میں خصوصی فرد اس وقت ابھرے جب ان کا انتخاب پنجاب پبلک سروس کمیشن میں بطور ماہر مضمون ہوااورپورے صوبے میں چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ تاہم،یہ صرف نقطہ آغاز تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ “بعد ازاں، اعلی تعلیمی کمیشن میں آسامیاں آنے کےبعد میں نے پاکستان اسٹڈی اور تاریخ کے لیے اپلائی کیا اور پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی”۔

رضوان یونس کی زندگی امید اور لگن کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے مسلسل اپنی صلاحیتوں کومنوایااور مصنف کے طور پر کارخدمات انجام دینے کی ایک نمایاں اور بھرپور کوشش کی۔

انہوں نے تاشقنداردو کو بتایا کہ ‘میں نے دس کتابیں لکھی ہیں۔ نو اس وقت مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھائی جارہی ہیں جبکہ دسویں کتاب اشاعتی مراحل سے گزر رہی ہے’۔
‘یہ دسویں میری زندگی کی سب سے اہم کتاب ہے، جو مقابلے کے امتحان کی تیاری میں معاون ثابت ہوگی۔ طلبہ کسی بھی داخلہ یا مقابلہ امتحان میں اس سے رہنمائی حاصل کرسکے گیں۔اس کتاب کانام میں نے’ علم کا سمندر’ رکھا ہے جو تقریبا 700 صفحات پر مشتمل ہیں”۔

رضوان یونس اس وقت مزید دو کتابوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ پر امید ہے کہ اگست جولائی تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔ کتابیں لکھنے کا طریقہ کار واضح کرتے ہوئےرضوان یونس نے کہا کہ” انگریزی کتب لکھنے کے لیے میں کمپیوٹر کی کی بورڈ طرز پر موبائل کا استعمال کرتا ہوں جبکہ اردو کتب کے لیے معلومات جمع کرنے کے بعد معاون کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے۔اس مرحلے کے بعد مواد تیار ہوتے ہی اردو بازار لاہور بھجوا دیتے ہیں۔اس میں کالج سے لے کر یونیورسٹی لیول تک کی کتابیں شامل ہیں’۔

رضوان یونس کے مطالعے اور تحقیق کا طریقہ کار بھی نہایت دلچسپی کا حامل ہے۔ وہ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا اپنے تئیں سہار ا لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ’ میرے پاس آڈیو کی کتابیں موجود ہیں جہاں سے رہنمائی مل جاتی ہے جبکہ آن لائن تحقیق کے لیے وہی ذرائع استعمال کرتا ہوں جو دیگر لوگ کرتے ہیں۔ تاہم، یہ سارا عمل ٹاکس کی مدد سے ہوتا ہے”۔

گویا اللہ نے بینائی سے دو گنا قوت گویائی عطا کی ہے۔ ٹاکس کی مدد سے سرچ کرنے اور مواد پڑھنے تک کا یہ سارا عمل رضوان یونس کی نہ صرف تحقیق بلکہ تحریک کا بھی ذریعہ ہے۔ وہ نابینا افراد کےلیے ایک ادارہ بنام’پاکستان ایسو سی ایشن آف دی بلائنڈ’ میں بھی کام کررہے ہیں۔ یہ ادارہ تحقیق و مطالعے کے ساتھ فلاحی کاموں کا بھی مرکز ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ابتدائی طور پر اس ادارے کے بانی سے میں نے موبائل اور متعلقہ چیزوں کا استعمال سیکھا ۔ ویب سائٹ کیسے کھولنی ہے، موادکیسے تلاش کرنا ہے، یہ سارا عمل ان کے مرہون منت ہے۔ تاہم، بعد کی ساری کوششیں میری اپنی ہیں”۔

رضوان یونس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی مادر علمی گورنمنٹ گریجویٹ کالج چشتیاں سے ہی تدریسی عمل کا آغاز کیا۔ رضوان یونس کلاس میں دو طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔ لیکچرز کے ساتھ طلبہ کے تلفظ اور بہتر ادائیگی پر بھی کام کر رہے ہیں۔رضوان یونس کی یہ خاصیت بھی ہے کہ طلبہ ان کے ساتھ معاونت کرتے نظر آتے ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں