اس وقت پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی بطور پارٹی قائد ایک مشکل سیاسی دور سے گزر رہے ہیں اور ان کے حامی، سپورٹرز، ووٹرز بھی سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتے ہی کیونکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند ہو چکے ہیں، بلکہ اگر درست کہا جائے تو عمران خان کے فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کی پریس کانفرنس کے بعد کئی طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں، جیسے یہ کہ کسی ادارے کو اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن سوال یہ ہے کہ ادارے کو اس نہج تک پہنچایا کس نے ہے؟ معاملات کو اس حد تک خراب کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
ان ناکامیوں کے پیچھے پوری ایک داستان ہے جو عبرت انگیز ہے اور قابلِ توجہ بھی۔ اپریل 1996ء میں قائم ہونے کے بعد 2018ء تک پی ٹی آئی کو اپنا منشور بنانے اور برسر اقتدار آنے کی صورت میں اہداف مقرر کرنے کے لیے 22 سال کا عرصہ ملا تھا لیکن ہوا یہ کہ جب اقتدار ملا اور سرکاری پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ پارٹی کے پاس نہ تو کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی اس امر کا تعین کیا گیا ہے کہ ملک کو کس طرف لے کے جانا ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساڑھے تین یا پونے چار سال کے عرصہ حکومت میں متعدد وزراء کو تبدیل کیا گیا یا ان کے قلم دان تبدیل کیے گئے مطلب یہ کہ عمران خان کو متعلقہ وزارتوں کے لیے مناسب افراد ہی دستیاب نہ تھے، جو معاملات کو سمجھتے اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نئے اقدامات کرتے۔
عمران خان نے دوسری بڑی غلطی یہ کی کہ پنجاب جیسے اہم صوبے کے لیے ایک ایسے فرد کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جس کو اس سے پہلے سیاست کی الف بے کا بھی پتا نہیں تھا اور اس فیصلے کا مقصد یہی نظر آتا تھا کہ وہ فیصلوں کے حوالے سے صوبہ پنجاب کو اپنے ماتحت رکھنے کے خواہش مند تھے۔ پھر وزیر اعظم کے طور پر عمران خان نے اپنے فیصلوں کے حوالے سے کئی بار یو ٹرن لیے اور اس پر فخر محسوس کرتے رہے۔ یہ تک نہ سوچا کہ لیڈر کی زبان ہی اور اس کا فیصلہ ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ایک سیاسی اور جمہوری سیٹ اپ میں معاملات کو بڑے حساس انداز میں دیکھنا پڑتا ہے اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانے پڑتے ہیں۔ ایک جمہوری حکمران اور حکومت کو عوام کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے، اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اپنے معاملات کو درست نہج پر رکھنا پڑتا ہے۔ پی ٹی ائی کے دور حکومت میں ایک صفحے پر ہونے کا واویلا تو بہت کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سارے معاملات کا بھی فقدان نظر آتا رہا۔
اس بات کا کریڈٹ عمران خان کو ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ملک میں عرصے سے ہونے والی کرپشن کے بارے میں عوام کا شعور بیدار کیا اور انہیں سیاسی معاملات کے حوالے سے سوچ بوجھ عطا کی۔ اگر آج کی حکومت سوشل میڈیا سے خائف نظر آتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ عمران خان کی فراہم کردہ وہی بیداری ہے اور آگہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے عمران خان کو پاکستان کی تقدیر بدلنے کا بہترین موقع عطا کیا تھا کہ اپوزیشن دیوار کے ساتھ لگ چکی تھی اور اگر شہباز شریف کے الفاظ لیے جائیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار میں چن دیا گیا تھا، اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے ساتھ مکمل طور پر ایک صفحے پر تھی اور کوئی ایسا مد مقابل نہ تھا جو حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو روک سکتا۔ اس کے باوجود اگر پی ٹی آئی کی حکومت ڈی ٹریک ہوئی تو اس کی وجہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے کچھ فیصلے ہی قرار پاتے ہیں۔ جمہوری سیٹ اپ بادشاہت نہیں ہوتی۔ اس میں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے لیکن پی ٹی آئی اس معاملے میں چوک گئی اور اس کی وجہ سے اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔اہم اور حساس نوعیت کے قومی اداروں اور افراد کو ہدفِ تنقید بنانا ایسا اقدام ہے جس پر متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی عمران سے ناراض اور شاکی نظر آتی ہے۔
میری نظر میں عمران خان کے لیے ان کا سب سے مہلک فیصلہ جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو توڑنا تھا۔ یہ اقدام تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت کو نئے انتخابات کرانے پر مجبور کرنا تھا لیکن بانی پی ٹی آئی کا یہ وار خود ان ہی پر چل گیا۔ انہوں نے وہ حصار خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیا جو انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کر سکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مئی 2023ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور سب کے سامنے ہے۔
مجھے انصار عباسی کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ عمران خان نے تحریک انصاف کو ایک ایسی بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ آگے بڑھنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔ خود بھی خان صاحب کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ جیل سے باہر آتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ایسے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کا یہ بیان اُمید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی 9 مئی اور اپنے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کریں اور معذرت کریں تو ایسی صورت میں شاید کوئی راستہ کھلے لیکن سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے بیانات اور اپنے فیصلوں سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں ہی پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست کا راز پوشیدہ ہے