ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ دس ممالک میں شمار پاکستان کے شہری بڑے پیمانے پر تباہی سے نمٹنے کے لیے اپنے تئیں رضاکارانہ طور پر مختلف مہمات چلا رہے ہیں۔ پاکپتن کے غلام رسول، چشتیاں کے خضر علی اور گجرات کے باسط گجر کے بعد اب آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر محمد عثمان خان عباسی بھی ماحول کی آبیاری کے لیے سرگرم عمل ہے۔
عثمان عباسی کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے ناڑا کوٹ سے ہے، جو گزشتہ بیس سالوں سے اسلام آباد کے ایک نجی ادارے میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے۔ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں وہ آزاد کشمیر اپنے گاؤں گئے، تو دیکھا کہ پورا علاقہ شدید قسم کی خشک سالی سے دو چار تھا۔ کافی دنوں سے بارش نہ ہونے کے باعث علاقہ مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے۔
اسی اثناء میں عثمان نے یہ بھی غور کیا کہ پہاڑوں سے نکلنے والے میٹھے اور شفاف پانی کے چشمے بھی 80 فیصد تک خشک اور بیاباں نظر آرہے ہیں۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے پہلے دو دو ماہ برف برستی تھی، چشمے بھر آتے تھے، پانی زمین میں جذب ہوجاتا تھا لیکن ماحولیاتی تبدیلی نے اب کی بار منظر نامے کو یکسر بدل دیا ہے۔
پچھلے بیس سالوں سے اوسط برف آٹھ سے دس انچ تک آگئی ہے۔ مون سون اور سردیوں میں بھی بارش کے برسنے کی رفتار انتہائی تیز ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پانی جذب ہونے کے بجائے بڑی مقدار میں بہہ جاتا ہے۔
تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے عثمان عباسی نے کہا کہ’ اس ساری صورتحال کے پیش نظر میں نے اپنی زمین کو پانی واپس مہیا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے گاؤں میں پہلا تالاب بنایا۔ تالاب کی تصویر اور اپنے مقصد کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد اسے کافی پسند کیا گیا۔ ہم خیال لوگوں نے رابطے شروع کیے کہ ہم بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ‘
یوں عثمان عباسی کے ‘تالاب مہم’ کی ابتدا ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘بعض افراد بذات خود اس کام کو آگے بڑھانے میں عملی طور پر شریک نہیں ہوسکیں، تو انہوں نے عطیات دینے کا فیصلہ کیا اور آج 120 دنوں کی محنت کے بعد 600 سے زائد تالاب پاکستان کے مختلف شہروں میں بن چکے ہیں۔ ‘
تالاب مہم کو بڑے پیمانے پر لے جانے کا خواب لیے عثمان عباسی نے اسے آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ روزگار کے طور پر بھی متعارف کرایا۔
انہوں نے بتایا کہ’ میں نے اس خیال کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا کہ مختلف مقامات پر تالاب بنانے کا خرچہ ہم اپنی عطیاتی رقم سے ادا کریں گے۔ اب ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت تالاب بنانے سے پہلے جگہ کی تصویر بھیجی جاتی ہے جبکہ ہر دو گھنٹے بعد کام کے صورتحال سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ یوں تالاب کی تکمیل اور اس کی تصدیق کے بعد اس کے پیسے متعلقہ فرد کو بھیجے جاتے ہیں۔’
‘اس وقت عموما ایک تالاب پر ہمارا 8 ہزار کا خرچہ آتا ہے، جس میں 18 ہزار لیٹر پانی کو ذخیرہ کرنے کی قابلیت موجود ہوتی ہے۔ ‘
تالاب مہم آزاد کشمیر کے بعد مری، گلیات اور نتھیا گلی میں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ مری میں 80 اور نتھیا گلی میں 15 سے زائد تالاب تعمیر ہوچکے ہیں۔
عثمان عباسی کا ماننا ہے کہ وہ ابھی تک اس مہم کے توسط سے 80 لاکھ لیٹر پانی زمین کو واپس دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے میں ہماری کوشش ہوگی کہ 10 ہزار تالاب تعمیر کیے جائیں۔ ایسے میں ذرائع رکھنے والے افراد خود تالاب بنا دیتے ہیں اور دیگر عطیات دے دیتے ہیں۔
عثمان عباسی سمجھتے ہیں کہ ‘زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے علاوہ تالابوں کے دیگر فوائد بھی ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی نمی کی وجہ سے جنگلات میں لگی آگ بے قابو نہیں ہوگی، پودوں کو پانی ملنے کے بعد سبزے میں اضافہ ہوگا، پانی کی کمی کی وجہ سے ہجرت کرنے والے پرندے واپس آئیں گے جبکہ سیلاب کے دنوں میں پانی کے تیز بہاؤ کو بھی روکا جاسکے گا۔’
سرکاری اداروں سے گزارش کرتے ہوئے عثمان عباسی نے کہا کہ’ میں ٹیوشن اور ٹیچنگ سے اپنا گھر بار چلاتا ہوں۔ مجھے اگر سرکاری ادارے سپورٹ کریں تو اس مہم کو بڑے پیمانے پر لے جانے کا منصوبہ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ اس وقت لاکھوں میں لوگ عطیات دینے کے لیے تیار ہیں لیکن میری این جی او کی رجسٹریشن اس میں مانع آجاتی ہے۔ ‘
‘اس وقت میری حکومت سے بس ایک ہی گزارش ہے کہ مجھے میرے ادارے کی رجسٹریشن میں سہولت فراہم کی جائے۔ ‘
اپنی بات ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘میرا خیال ہے ہر بندے کو آنے والے مون سون بارشوں کے ایک ایک بوند کو محفوظ بنانے کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑے گا ورنہ نتیجے کے طور پر 15 سے 20 کروڑ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ‘