دوحہ میں فلس-طینی مزاحمتی تنظیم کے رہنماؤں پر حملہ بالکل جائز تھا، نیتن یاہو

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے مرکز میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے رہنماؤں پر اسرائیلی فوج کا حملہ بالکل جائز تھا کیونکہ قطر کا فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران نیتن یاہو نے مؤقف اپنایا کہ قطر حماس سے رابطے میں ہے، اسے پناہ دیتا ہے، مالی مدد اور دیگر معاونت فراہم کرتا ہے۔ اس کے پاس فلسطینی مزاحمتی تنظیم پر دباؤ ڈالنے کی طاقت تھی جو وہ استعمال کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا، لہٰذا ہم نے جو کارروائی کی وہ جائز تھی۔

دوحہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے رہنماؤں پر اسرائیلی فوج کی یہ کارروائی قطر پر براہِ راست پہلا حملہ ہے، حالانکہ قطر امریکا کا قریبی اتحادی ہے۔ اس حملے پر دنیا بھر سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی میں ایک بڑے موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیلی حملے کے اگلے ہی روز پیر کو عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے قطر میں ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرِ ثانی کریں اور اس کے اقدامات کی مذمت کریں۔

قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی اسرائیلی وزیرِاعظم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عرب دنیا کو اپنے اثر و رسوخ کے تحت لانا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق، گزشتہ ہفتے دوحہ پر اسرائیلی حملے کا مقصد غزہ سے متعلق مذاکرات کو بند گلی کی جانب دھکیلنا تھا تاکہ فلسطین کے مسئلے کے حل کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ منگل، 9 ستمبر کو اسرائیلی فوج نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فلسطینی مزاحتمی تنظیم کے رہنماؤں پر فضائی حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وضاحت کی تھی کہ اسرائیل نے انہیں اس کارروائی کے بارے میں تقریبا اُسی وقت اطلاع دی جب وہ اس پر عمل درآمد کر رہے تھے، اس لیے وہ قطری حکام کو بروقت آگاہ نہیں کر سکے۔ تاہم ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ ایسا حملہ دوبارہ نہیں ہوگا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں