اہلیان غزہ کی واپسی،”سفر طویل تھا لیکن ہم لوٹ آئے”۔

غزہ پٹی کے شمالی حصے میں ہزاروں فلسطینی جنگ بندی کے تحت پہلی بار واپس لوٹ رہے ہیں۔ یہ وہ علاقہ تھا جو اسرائیل اور حماس کی 15 ماہ طویل جنگ میں سب سے زیادہ تباہ ہوا ۔ اس علاقے کو جنگ کے ابتدائی دنوں سے بند کر دیا گیا تھا۔

پناہ گزین کیمپوں اور عارضی پناہ گاہوں میں ایک سال سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں، چاہے ان کے گھر تباہ ہو چکے ہوں یا جزوی طور پر باقی ہوں۔
یاسمن ابو عمشہ جو تین بچوں کی ماں ہیں، انہوں نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے تقریباً 6 کلومیٹر پیدل سفر طے کیا اور اس طرح وہ غزہ شہر میں اپنے گھر تک پہنچے، جو کہ جزوی طور پر تباہ تھا لیکن رہائش کے قابل تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طویل سفر تھا لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم واپس لوٹ آئے۔

فلسطینیوں کے لیے یہ واپسی نہ صرف ان کی استقامت کا اظہار ہے بلکہ اس نظریے کی تردید بھی ہے کہ وہ مصر یا اردن میں آباد ہو جائیں، جیسا کہ ماضی میں امریکی رہنماؤں نے تجویز دی تھی۔

اسماعیل ابو مطرجو چار بچوں کے والد ہیں ، انہوں نے اے پی کو بتایا کہ شمالی غزہ پہنچتے ہی لوگ خوشی سے نعرے لگا رہے تھے، گلے مل رہے تھے اور اپنے خاندانوں سے ملاقات پر شکر ادا کر رہے تھے۔

اس واپسی کو حماس نے اسرائیل کی شکست اور ان کے نقل مکانی کے منصوبوں کی ناکامی قرار دیا۔
حماس اسرائیل جنگ کے دوران تقریباً 47,000 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں اکثریت خواتین اور بچے تھے، جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 17,000 سے زیادہ جنگجو مارے۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل نے شمالی غزہ سے بڑے پیمانے پر انخلا کا حکم دیا تھا، جس کے بعد تقریباً 10 لاکھ افراد جنوب کی جانب منتقل ہو گئے۔اب جنگ بندی کے تحت شمالی غزہ کا دوبارہ کھلنا، فلسطینی عوام کے لیے امید اور خوشی کا باعث بن گیا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں