پاکستان کی معیشت؛ اصلاحات کا فیصلہ کن موڑ

پاکستان کی معیشت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں عالمی معاشی جھٹکوں اور داخلی کمزوریوں نے اسے بار بار جھنجھوڑا ہے۔ دنیا کی بدلتی ہوئی اقتصادی حرکیات، رسد و طلب کے بحران، جغرافیائی کشیدگی، توانائی کی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ اور مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے یہ واضح کردیا ہے کہ صرف بیانات یا فوری اقدامات سے مستحکم معاشی ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مضبوط اور لچک دار معیشت اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب ملک کے مالیاتی ڈھانچے کو اس سطح تک تقویت دی جائے کہ وہ بیرونی دباؤ کے سامنے کھڑا رہ سکے۔ اس کے لیے بیرونی زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر، مالیاتی نظم و ضبط اور واضح پالیسی سمت ناگزیر ہیں۔

ملکی معاشی مکالموں میں یہ بات شدت سے ابھر کر سامنے آئی ہے کہ مقامی معیشت کا موجودہ ڈھانچہ بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ ایک ایسے ملک کے لیے جس کی آبادی پچیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، گزشتہ دہائیوں کی اوسط ترقی کی رفتار کسی طور بھی کافی نہیں رہی۔ عالمی سطح پر جہاں نئے معاشی ماڈلز، تکنیکی پیش رفت اور علاقائی تجارت کے نئے محور تخلیق ہو رہے ہیں، وہاں پاکستان اب بھی روایتی پالیسیوں اور غیرمستحکم ڈھانچوں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے معاشی ماہرین طویل عرصے سے دہراتے آرہے ہیں کہ اس ماحول میں وقتی سہارا تو ممکن ہے، مگر پائیدار ترقی کا راستہ کبھی ہموار نہیں ہو سکتا۔

ملک کے معاشی ڈھانچے کی کمزوریوں میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ رہی ہے کہ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار نے پالیسی سازوں کو بنیادی اصلاحات سے دور رکھا۔ جب معاشی سانچے کی تشکیل بیرونی سہولتوں کے رحم و کرم پر ہو تو داخلی تبدیلی کی ترغیب دم توڑ دیتی ہے۔ اشرافیہ کی ترجیحات بھی اس غیر صحت مند ماحول کو مزید کمزور بناتی ہیں، کیونکہ طاقتور طبقات مقامی اصلاحات اور سخت فیصلوں کی راہ میں دیوار بنے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی معاشی اصلاحات کا پہیہ کبھی تیز نہیں چل پاتا۔

ملکی محصولات کے نظام میں پائے جانے والے پیچیدہ سوالات بھی اسی بڑے بحران کا حصہ ہیں۔ براہ راست ٹیکسز کے وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی اختیار کی بحث نے وفاقی مالیاتی ڈھانچے کو مزید غیر واضح بنا رکھا ہے۔ ایک جانب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ وفاق کے پاس ٹیکس حکمتِ عملی کا بوجھ ہونا چاہیے تاکہ پورے ملک کے لیے ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جا سکے، جبکہ دوسری طرف یہ موقف سامنے آتا ہے کہ جب ٹیکسوں کا بیشتر حصہ صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، تو پھر عملی ذمہ داری بھی وہیں ہونی چاہیے۔ اس بحث سے بڑھ کر اصل سوال یہ ہے کہ فائدہ کس کے پاس جاتا ہے؟ اور کارکردگی کا معیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ گزشتہ پندرہ برس میں وسائل کی منتقلی کے باوجود انسانی ترقی کے اشاریے بلند نہیں ہو سکے، جس کا بنیادی سبب گورننس کا بحران اور ترجیحات کا فقدان ہے۔

قومی مالیاتی معاہدوں کا مستقبل بھی انہی سوالات کے گرد گھوم رہا ہے۔ نئے مالیاتی فارمولا کا تعین، وسائل کی تقسیم کے اصول اور صوبہ جاتی ذمہ داریوں کا تعین وہ امور ہیں جن پر قومی سطح پر ایک بالغ اور حقیقت پسندانہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور صوبے ٹیکس جمع کرنے، سماجی خدمات کو بہتر بنانے اور حکومتی اخراجات کو درست سمت دینے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ آبادی، وسائل، ترقیاتی ضرورتیں اور حقیقی معاشی استعداد سب ایسے عوامل ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ سب سے سنگین چیلنج ہے جس نے معاشی آزادی کو محدود کردیا ہے۔ مجموعی قرض کا حجم اس سطح تک پہنچ چکا ہے کہ مالیاتی پالیسی کے لیے گنجائش سکڑتی جا رہی ہے۔ قرضوں کے سود کی ادائیگی خود ایک بڑا بوجھ ہے، اور جب ریاست کے پاس سرمایہ کاری اور سماجی ترقی کے لیے گنجائش نہ بچے تو اصلاحات کا عمل مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قرض کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے مرحلہ وار حکمت عملی اختیار کی جائے اور سرکاری اخراجات کا سخت احتساب کیا جائے۔

اقتصادی پالیسیوں میں شفافیت، ٹیکس کے نظام میں وسعت، محصولات کے فرار کا خاتمہ اور دستاویزی معیشت کا فروغ وہ عوامل ہیں جن پر اب تک سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ نجی شعبے کے ساتھ پالیسی سطح پر مسلسل رابطہ نہایت ضروری ہے تاکہ نہ صرف بجٹ سازی بلکہ سال بھر کے دوران پالیسی تخلیق کا عمل جاری رہے۔ اس ضمن میں ایک منظم اور مستقل مکالمہ نہ صرف پالیسی کو مضبوط کرتا ہے بلکہ نجی شعبے میں اعتماد بھی پیدا کرتا ہے، جو سرمایہ کاری کے فیصلوں کا بنیادی محرک ہوتا ہے۔

صنعتی شعبے میں مسابقتی ماحول کی تشکیل کے لیے توانائی کے نرخ اور ٹیکس کی شرحوں کا بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ ہونا لازمی ہے۔ توانائی شعبے میں اصلاحات کا عمل اگرچہ شروع ہوچکا ہے، مگر اس کی رفتار اور تسلسل ابھی تک مطلوبہ سطح کو نہیں پہنچا۔ ملکی صنعت کو اس وقت ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں توانائی کے اخراجات قابلِ برداشت ہوں، پالیسی میں استحکام موجود ہو، اور برآمدات کے فروغ کے لیے واضح حکمت عملی اختیار کی جائے۔

سرکاری اداروں میں بدانتظامی اور غیر ذمہ دارانہ رویوں نے قومی خزانے پر مستقل بوجھ ڈالا ہے۔ سرکاری اداروں کا جائزہ لینے، غیر ضروری محکموں کو ختم کرنے اور اداروں کی نجکاری کے فیصلے اگر سنجیدگی سے جاری رکھے جائیں تو یہ نہ صرف مالی بوجھ کم کر سکتے ہیں بلکہ کارکردگی میں نمایاں بہتری بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہزاروں غیر ضروری آسامیوں کا خاتمہ اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے جس سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ ہلکا ہوا ہے۔

پاکستان کی معاشی سمت کا تعین اب محض حکومتی اعلانات یا وقتی اقدامات پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عالمی حالات، مقامی ضروریات، بڑھتی ہوئی آبادی اور محدود وسائل نے یہ واضح کردیا ہے کہ ملک کو ایک ایسا معاشی ڈھانچہ درکار ہے جو مضبوط بھی ہو اور لچک دار بھی۔ اصلاحات کا بوجھ کسی ایک ادارے یا سطح پر نہیں رکھا جاسکتا؛ یہ ایک مشترکہ قومی ذمہ داری ہے جس میں وفاق، صوبے، نجی شعبہ، مالیاتی ادارے اور سماجی طبقات سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔

پاکستان کی معیشت اب ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ اگر آج سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو کل کے بحران کہیں زیادہ سنگین ہوں گے۔ لیکن اگر آج درست سمت میں مضبوط قدم اٹھائے گئے تو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستحکم، مضبوط اور پائیدار معاشی مستقبل تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں