استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات ایک سفارتی موقع ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف الفاظ بلکہ طاقتِ عمل، ثبوت اور نفاذ کے تقاضوں پر کھڑا ہے، پاکستان نے جو تحمل، حکمت اور پیشہ ورانہ فوجی حکمتِ عملی دکھائی وہ اب عملی کامیابیوں میں منہ بولتی صورت میں جلوہ گر ہے، سرحدی خلاف ورزیوں اور سلسلہ وار دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں پاکستانی مسلح افواج نے بروقت، انتہائی مہارت کے ساتھ کارروائیاں کر کے دشمن کے پراکسی نیٹ ورکس کو بے نقاب اور کمزور کیا.
ان کارروائیوں میں targeted strikes، مضبوط انٹیلی جنس ایکشن اور تیز ردِعمل شامل تھے، جس نے دہشت گردوں کے آپریشنل مراکز، لاجسٹک چینز اور مالی ربط کو تباہ کیا، یہی عسکری برتری مذاکراتی میز پر پاکستان کو ایک Credible فریق کے طور پر کھڑا کرتی ہے، پاکستان کا موقف واضح ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی غیر ریاستی مسلح قوت کے لیے پناہ گاہ نہ بنے، تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر عناصر کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہو، اور اس عمل کے لیے ایک قابلِ تصدیق monitoring mechanism کے ساتھ موثر intelligence sharing کا نظام قائم کیا جائے، یہ مطالبات نہ صرف ریاستی خودمختاری کے تقاضے ہیں بلکہ بین الاقوامی سیکیورٹی اور ملکی سالمیت استحکام کی بنیادی شرط بھی ہیں.
بدقسمتی سے یہاں ایک ڈرپوک کھیل بھی نظر آتا ہے، بھارت نے افغانستان میں اپنی ناکامی کے بعد روایتی پراکسی حربوں کی طرف رجوع کیا، اس نے بعض دھڑوں کو سہارا دے کر پاکستان کے خلاف پراکسی وار چھیڑ رکھی ہے، جب افغانستان میں بھارتی اثر رسوخ کم ہوا تو نئی دہلی نے سرِ کریک اور دیگر حساس محاذوں پر فوجی مشقوں کو بہانہ بنا کر کشیدگی بڑھانے کی کوشش کا اعلانیہ ارادہ ظاہر کیا، مگر پاکستان کی مسلسل عسکری جوابیاں، پیشگی تیاری، اور مربوط کاؤنٹر ٹیرر حکمتِ عملی نے ان مقاصد کو ناکام کرنے کی مکمل تیار ہے، یہ جوابی حکمتِ عملی محض ردعمل نہیں بلکہ Intelligence-driven، time-bound اور results-oriented کارروائیوں کا جامع امتزاج ہے.
استنبول مذاکرات میں پاکستان نے یہ واضح کر دیا کہ امن اسی صورت قابلِ قدر ہوگا جب وہ Verifiable، Time-bound اور Monitorable ہو، الفاظ سے زیادہ عمل کی اہمیت نے عالمی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط کی ہے، بین الاقوامی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ بھارت بعض اوقات فوجی مشقوں کو مبہم سیاسی اشاروں کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ اپنی داخلی نااہلیوں کو بیرونی سطح پر چھپایا جا سکے، مگر اب پاکستان کی عسکری کامیابیاں اور مضبوط دفاعی ڈھانچہ نئی دہلی میں ایک واضح پیغام پہنچا چکا ہے کہ ہماری سرحد، قومی وقار اور عوام کا تحفظ کسی رعایت یا مفاہمت کا موضوع نہیں، استنبول مذاکرات ایک حقیقی موقع ہیں بشرطیکہ افغان طالبان اپنے وعدوں کو الفاظ ہی تک محدود نہ رکھیں اور پاکستان کے تحفظات پر عملی اقدامات کریں، صرف تبھی یہ مذاکرات امن کا ایک مضبوط باب بن سکیں گے، ورنہ بھارت یا کسی بھی بیرونی عنصر کے بہانے پر کھڑی گئی کشیدگیاں آخرکار مذاکرات کو ناکام کر کے میدانِ عمل کی طرف لے جائیں گی.
پاکستان نے اپنی حکمتِ عملی، فورس پوسچر اور عوامی یکجہتی سے یہ واضح کر دیا ہے کہ امن عزت کے ساتھ ہوگا، یا پھر اپنی حفاظت کے لیے ہر دستیاب آپشن استعمال کیا جائے گا، استنبول کا فریم ورک اگر عملیت میں آئے تو پورے خطے کے لیے مستحکم امن کا راستہ کھلے گا، اور اگر وعدے توڑے گئے تو پاکستان کی determined جوابی کارروائیاں میدانِ جنگ میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں گ