پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ایک بار پھر وہی داستان تازہ کر دی ہے جس سے ہم ہر چند سال بعد گزرتے ہیں۔ ملک کے شمالی پہاڑی علاقوں سے لے کر جنوبی پنجاب اور سندھ کے وسیع میدانوں تک ہر جگہ پانی کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ بڑے شہروں میں بارش کا پانی لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے تو دیہی علاقوں میں فصلیں ، مویشی اور کچے مکان سب پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ کراچی، لاہور، پشاور اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں نظام زندگی مفلوج ہے۔ جگہ جگہ گھنٹوں پانی کھڑا رہتا ہے، ٹریفک معطل ہو جاتی ہے اور روزمرہ زندگی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ دیہات میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ مکینوں کے پاس چھتیں نہیں بچیں، فصلیں تباہ ہو گئیں، جانور ڈوب گئے اور کھانے پینے کی اشیا بھی ناپید ہو رہی ہیں۔
اس وقت خاص طور پر پنجاب کے علاقے جلالپور، ملتان اور مظفرگڑھ شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، ان کے پاس نہ خوراک ہے نہ علاج معالجے کی سہولت۔ کھیتوں میں کپاس اور گنے کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ کسان جنہوں نے قرض لے کر بیج اور کھاد خریدی تھی، اب ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ان علاقوں سے آنے والی تصویریں اور خبریں دل دہلا دینے والی ہیں۔ لوگ مدد کے منتظر ہیں، مگر سرکاری مشینری کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔ صرف مقامی نوجوان، رفاہی ادارے اور کچھ دینی جماعتیں ہی میدان میں نظر آتی ہیں جو اپنے محدود وسائل کے ساتھ متاثرین کو سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اگر پاکستان کی حالیہ تاریخ کو دیکھا جائے تو 2010 کا سیلاب سب سے بڑا اور ہولناک تھا۔ اس میں تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے، بیس لاکھ مکانات تباہ ہو گئے تھے اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔ اس کے بعد 2014، 2022 اور اب 2025 میں پھر وہی مناظر سامنے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے بعد اب تک پندرہ ہزار سے زائد لوگ مختلف سیلابوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں مال مویشی ڈوب گئے اور ہزاروں بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہر بار حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، اربوں روپے کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، لیکن جب اگلا سیلاب آتا ہے تو وہی ٹوٹے ہوئے بند، وہی پرانے پل اور وہی شکستہ بند نظر آتے ہیں۔
حکومتوں نے مختلف ادوار میں سیلاب سے بچاؤ کے منصوبے بنانے کا اعلان ضرور کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر منصوبے کاغذوں تک محدود رہے۔ کبھی سروے کیے گئے، کبھی عالمی اداروں سے قرض اور امداد لی گئی، لیکن عملی طور پر بند باندھنے، نکاسی آب کے نظام کو درست کرنے یا ڈیمز اور بیراجوں کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے۔ 2010 سے اب تک نو سو بانوے ارب روپے سے زائد رقم سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں کے لیے منظور کی گئی، لیکن جب زمینی حقائق دیکھے جائیں تو کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ اس خطیر رقم میں سے اگر نصف بھی درست طریقے سے استعمال کی جاتی تو آج ہزاروں بستیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
سب سے بڑی ناکامی ہمارے منصوبہ بندی کے نظام میں ہے۔ بار بار کی تباہی کے باوجود آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ دریاؤں کے قریب آباد بستیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے یا مستقل بنیادوں پر ان کے لیے ڈیم اور حفاظتی بند بنائے جائیں۔ سیلابی پانی جب دریائے سندھ یا دریائے چناب کے کناروں سے بہتا ہوا نکلتا ہے تو سب سے پہلے وہی علاقے متاثر ہوتے ہیں جو دہائیوں سے ان کے کناروں پر بسے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگ ہر سال سب کچھ لٹا کر پھر وہی پرانے گھروں میں واپس آ جاتے ہیں کیونکہ ریاست نے انہیں کوئی متبادل فراہم نہیں کیا۔
حالیہ سیلاب میں خیبر پختونخوا کے سوات اور دیر جیسے پہاڑی علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پل بہہ گئے، سڑکیں کٹ گئیں، اور درجنوں لوگ ملبے تلے دب گئے۔ بلوچستان میں تربت، قلات اور ژوب کے علاقے بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہاں برسوں سے بارش کم پڑتی ہے، لیکن جب بارش ہوتی ہے تو بستیوں کو بہا کر لے جاتی ہے، کیونکہ نکاسی آب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سندھ کے نشیبی علاقے بدین، سجاول اور ٹھٹہ بھی اسی طرح متاثر ہوئے ہیں، جہاں لوگ اپنے بچوں کو چارپائیوں پر ڈال کر کچے راستوں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت پر بھی ان سیلابوں نے کاری ضرب لگائی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری اپنی زمینیں پانی میں بہہ جاتی ہیں اور ہمیں گندم اور دیگر اجناس درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ ہر سال جب سیلاب آتا ہے تو ہزاروں کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ بنک اپنی وصولی کے لیے سختی کرتے ہیں اور کسان اپنے ہی کھیتوں میں مزدور بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان صرف کسان کو نہیں، بلکہ پورے ملک کو ہوتا ہے۔ مہنگائی بڑھتی ہے، خوراک کی قلت ہوتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیلاب اب ہمارے لیے صرف ایک قدرتی آفت نہیں رہا بلکہ حکومتی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بارشیں اور طوفان آتے ہیں، لیکن وہاں ریاستی ادارے فوری حرکت میں آتے ہیں۔ نہ صرف متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے، بلکہ بعد میں ان کے لیے بحالی کے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کام صرف رفاہی ادارے یا مذہبی تنظیمیں کرتی ہیں۔ حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ کسی وزیر یا افسر کو ہیلی کاپٹر میں بیٹھا کر متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ کروا دے اور پھر سوشل میڈیا پر تصویریں شائع کرا دے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے کسان اپنی محنت کو پانی میں بہتا دیکھیں گے؟ کب تک بچے کھلے آسمان تلے بیٹھے رہیں گے؟ کب تک عورتیں امدادی سامان کے لیے قطاروں میں کھڑی رہیں گی؟ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ حکومت اپنی پالیسیوں کو سنجیدہ بنائے، اداروں کو فعال کرے اور فنڈز کی شفاف تقسیم یقینی بنائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف ریاست کا کام نہیں۔ مقامی سطح پر معاشرے کو بھی اپنے طور پر چھوٹے چھوٹے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر مقامی لوگ اپنے بندوں کی دیکھ بھال کریں اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھیں تو نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیلاب ہمارے لیے آزمائش ضرور ہے مگر ہماری بھی ایک ذمہ داری بھی ہے کہ ہم جتنے اقدامات اس کو روکنے کےلیے کرسکتے ہیں، وہ ضرور کریں۔ اگر ہم صرف حکومت کو کوستے رہیں اور خود کچھ نہ کریں تو حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔،البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک ریاست اپنے فرائض پورے نہیں کرے گی، یہ ملک بار بار اسی تباہی سے گزرتا رہے گا۔ آج جلالپور پیر والا، ملتان اور مظفرگڑھ کے لوگ مدد کے منتظر ہیں، کل یہی صورتحال سکھر، دادو یا کسی دوسرے گاؤں میں ہوگی۔ اگر ہم سب مل کر یہ طے کر لیں کہ اب کی بار ہم صرف تماشائی نہیں رہیں گے، تو شاید اگلا سیلاب ہمارے لیے اتنی بڑی تباہی نہ لائے۔