اسلام آباد نے افغان حکومت سے مذاکرات استنبول میں جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی

پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو استنبول میں توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ ترکیہ اور قطر کی درخواست پر کیا گیا ہے، جو مذاکرات کے میزبان اور ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق مذاکرات کا نیا دور پاکستان کے مرکزی مطالبے پر مرکوز ہوگا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف “واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر اقدامات” کرے۔

مذاکرات 25 اکتوبر کو شروع ہوئے تھے لیکن بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، جو افغان سرزمین سے حملے کر رہی ہے۔ کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹی ٹی پی اس کے کنٹرول میں نہیں۔

اس ماہ پاک افغان سرحد پر جھڑپوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ اگرچہ 19 اکتوبر کو دوحہ میں فائر بندی پر اتفاق ہوا تھا، تاہم بعد کے مذاکرات کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بدھ کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں خبردار کیا کہ اگر افغان سرزمین سے حملے جاری رہے تو پاکستان جوابی کارروائی کرے گا۔

ان کا کہنا تھا، “اگر ہماری سرزمین پر حملے ہوئے تو ہم کارروائی ضرور کریں گے، چاہے ہمیں افغانستان کے اندر تک جانا پڑے۔”

خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بھی سخت ردِ عمل ظاہر کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ اگر طالبان نے شدت پسندوں کو نہیں روکا تو پاکستان کے لیے انہیں “ختم” کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا، “پاکستان کو اپنی پوری عسکری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، ہم طالبان حکومت کو دوبارہ ان غاروں میں دھکیل سکتے ہیں جہاں سے وہ نکلے تھے۔”

پاکستانی وزیرِ دفاع نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان کو ایک اور جنگ میں دھکیل رہے ہیں تاکہ “جنگی معیشت” برقرار رکھ سکیں، جبکہ بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ کابل حکومت کے اندر اثر و رسوخ بڑھا کر پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ چلا رہا ہے۔

افغان طالبان کی جانب سے اب تک پاکستان کے تازہ بیانات پر کوئی باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں