امریکی کانگریس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکسوں اور سرکاری اخراجات سے متعلق بڑے قانون ’بگ بیوٹی فل بل‘ کی منظوری دے دی ہے، جسے صدر ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے لیے ان کے ایجنڈے کی اہم ترین کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ قانون سازی، جسے ٹرمپ کے معاشی وژن کا مرکزی ستون سمجھا جاتا ہے، ان ٹیکس کٹوتیوں کو مستقل حیثیت دے گی جو ان کی پہلی مدتِ صدارت میں عارضی طور پر نافذ کی گئی تھیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان نے جمعرات کے روز اس بل کو 214 کے مقابلے میں 218 ووٹوں سے منظور کیا، جب کہ اس سے قبل سینیٹ نے بھی منگل کو بل کو صرف ایک ووٹ کی برتری سے منظور کر لیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے ریپبلکن اکثریتی کانگریس کو آزادی کے دن یعنی 4 جولائی تک بل کو حتمی شکل دینے کی ڈیڈ لائن دی تھی، جس کے بعد دونوں ایوانوں سے اس کی منظوری کو ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سیاسی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم، کانگریس کے غیرجانبدار بجٹ آفس نے اس بل کے مالی اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ، اس قانون کے نفاذ سے اگلے دس برسوں میں وفاقی خسارے میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، لاکھوں امریکی شہری ممکنہ طور پر اپنی صحت کی انشورنس کوریج سے محروم ہو سکتے ہیں۔
منگل کے روز سینیٹ میں ’دی ون بگ بیوٹیفل بل ایکٹ‘ کو منظوری دینے کے لیے کئی گھنٹوں تک شدید بحث جاری رہی۔ بل کو آخرکار نائب صدر جے ڈی وینس کے فیصلہ کن ووٹ سے منظور کیا گیا۔ ان کے اعلان پر ریپبلکن ارکان نے تالیاں بجائیں، جب کہ ڈیموکریٹس نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
بل کی منظوری کے عمل میں ریپبلکنز کو شدید سیاسی چیلنجز کا سامنا رہا، خاص طور پر ٹیکس میں کٹوتیوں، سماجی بہبود کے پروگراموں میں ممکنہ تبدیلیوں اور سرکاری اخراجات پر اختلافات کی وجہ سے۔ اس دوران پارٹی قیادت کو اپنی صفوں کو متحرک رکھنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔
بل کی منظوری کے دوران تین ریپبلکن سینیٹرز ، سوسن کولنز، تھوم ٹیلس اور رینڈ پال نے ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہوئے بل کے خلاف ووٹ دیا، جس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی نمایاں ہوئے۔