‘ کوئی مخلوق بے مقصد نہیں ہوتی’، سانگھڑ کی اونٹنی سمیت دیگر جانوروں کو CDRS کیسے تحفظ فراہم کرتا ہے؟

سوشل میڈیا پر 13جون 2024 کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں درد سے کراہتی ایک اونٹتی نظر آرہی تھی۔ اس اونٹنی کی عمر سات سے آٹھ ماہ تھی اور اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی۔ یہ جانوروں کے حقوق کی بدترین پامالی تھی، جس پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس واقعے میں ملوث ملزم کا نام غلام رسول شر تھا جس نے غصے میں آکر تیز دھار آلے سے اپنی زمین پر چرنے والی اس اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی تھی۔

بعدازاں، اونٹنی کو سی ڈی آر ایس (comprehensive disaster response services) نامی فلاحی ادارے نے ریسکیو کرکے اپنی پناہ گاہ میں اس کا علاج شروع کیا۔ آہ و فریاد کرتی اس اونٹنی نے سوشل میڈیا پر عوام کی توجہ حاصل کی اور ادارے کی جانب سے اس کو ‘کیمی’ کانام دیا گیا۔ کیمی نامی یہ اونٹنی آج باقاعدہ اپنے پیروں پر دوبارہ اس وقت کھڑی ہوئی جب اس کو امریکہ میں تیار کردہ ایک مصنوعی ٹانگ لگائی گئی۔

کراچی میں ڈائریکٹر آپریشن سی ڈی آر ایس جنید نذیر نے تاشقند اردو کو بتایا کہ’28 مئی کو سٹیل سے بنی مصنوعی ٹانگ لگانے کی مشقوں کا آغاز ہوا، امید ہے کہ ‘کیمی’ جلد ہی اس کو اپنا لے گی۔ اس عمل میں ایک ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس وقت کیمی کا زخم مکمل طور پر ٹھیک ہوگیا ہے، جس کے بعد اس کے رویے میں بھی کافی بدلاؤ محسوس کیا گیا۔’

انہوں نے کہا کہ’ اس مصنوعی ٹانگ کا ناپ یہاں ہی لیا گیا تھا جبکہ اس کو امریکہ کی ایک کمپنی ‘بائیونک پیٹ (Bionic Pet) نے بنایا ہے۔ یہ کمپنی دنیا بھر میں جانوروں کے لیے مصنوعی ٹانگیں بناتی ہے۔’

جنید نذیر کے مطابق کیمی کو اس کی عادت لگتے مہینہ یا اس سے کم بھی لگ سکتا ہے۔ اصل ہدف یہ ہے کہ کیمی اس کو جس قدر جلد اپنائے گی، اتنی ہی تیزی سے وہ چلنے کے قابل ہوگی۔

کیمی کراچی شیلٹر ہوم میں مصنوعی ٹانگ کی مشق کے بعد- تصویر بشکریہ جنید نذیر

سی ڈی آر ایس بینجی فلاحی ادارہ گزشتہ کئی برسوں سے جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے لیے پاکستان میں کام کر رہا ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے قائم سی ڈی آر ایس کا یہ منصوبہ ‘کیمی’ جیسے کئی جانوروں کو نئی زندگی دے رہا ہے۔ ڈائریکٹر سی ڈی آر ایس بینجی پراجیکٹ اسلام آباد ڈاکٹر قرۃالعین شفقت نے تاشقند اردو کو بتایا کہ’ اس خصوصی پروگرام کا آغاز سال 2021 میں اسلام آباد سےکیا گیا۔ اس کے ذریعے مختلف پناہ گاہیں تعمیر کی گئی، جو اب کراچی، لاہور اور سکردو میں بھی موجود ہیں۔’

اس پروگرام میں جانوروں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بھی اقدمات لیے جاتے ہیں ۔انہیں گلی محلوں سے اٹھایا جاتا ہے، مناسب خوراک اور ویکسین لگانے کے بعد اسی مقام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جانوروں کو ریسکیو کرنے کا سلسلہ بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے کہا کہ’ اس وقت پاکستان بھر میں ہمارے سات سے زائد ایمبولینس اس مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔ لوگ ہمارے نمبر پر رابطہ کرکے مطلع کرتے ہیں اور ہماری ٹیم اس پر رد عمل دیتے ہوئے زخمی جانور کو پناہ گاہ لاکر دیکھ بھال کرتی ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ’ ہمارے دفتر میں بچ جانے والے کھانے کو ضائع کرنے کے بجائے جانوروں کو دیا جاتا ہے۔ معمول کے اس کام میں ہمیں اندازہ ہوا کہ سڑکوں پر پانے جانے والے کئی جانور زخمی حالت میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو ہماری ٹیم مختلف اسپتالوں میں علاج کی عرض سے لے جانے لگی۔یہاں سے ہمیں خیال آیا کہ ایسے جانوروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ قائم کرنی چاہیے جہاں ان کو علاج کے ساتھ دیگر ضروریات بھی مہیا کی جاسکے۔’

سی ڈی آر ایس شیلٹر ہوم، اسلام آباد-تصویر بشکریہ ڈاکٹر قرۃ العین

جانوروں کے تحفظ کے لیے سی ڈی آر ایس کے اس پروگرام میں آگہی اور عوامی شعور بیدار کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں اسکول، جامعات، عوامی مقامات، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کی مدد سے عوام کو جانوروں کے حقوق کے باے میں بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے بتایا کہ ‘اللہ نے ان جانوروں کو بے مقصد نہیں پیدا کیا ۔ان کا ماحول کے توازن میں اپنا ایک خاص کردار ہے جس کی نفی سے اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جانوروں کے تحفظ کے لیے نئے رضاکاروں اور طلبہ کو بھی تربیت دی جاتی ہے جبکہ قدرتی آفات کے موقع پر جہاں انسانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے وہاں ہماری ٹیم جانوروں کے بچاؤ کے لیے کام کرتی ہے۔’

اس ادارے میں زخمی حالت میں ریسکیو ہونے والے جانوروں کو پہلے مرحلے میں ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے، ایکس ریز اور الٹراساؤنڈز کے بعد باقاعدہ علاج کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین کے مطابق ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد کوئی اس جانور کو قبول کرلیں۔ اسی طرح سپانسر شپ سکیم کے تحت امیر افراد سے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے مالی معاونت کی درخواست بھی کی جاتی ہے۔’

انہوں نے عوام کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ‘اللہ تعالی کی پیدا کردہ کوئی بھی مخلوق بے مقصد نہیں ہوسکتی۔ ہم اپنے معاشرے سے بلیوں اور کتوں کا خاتمہ کریں گے تو سو طرح کی بیماریوں کو دعوت دیں گے۔ اسلام نے بھی جانوروں کے حقوق پر زور دیا ہے کہ بے زبان کو پانی پلانے پر اللہ جنت نصیب کرتا ہے اور اصحاب کہف کے کتے کو بھی جنت بھیجتا ہے۔ اس لیے مسلمان کی حیثیت سے جانوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کی ہماری ذمہ داری دگنا ہوجاتی ہے۔’

سی ڈی آر ایس کیسے قائم ہوا؟

سی ڈی آر ایس کے سی ای او ایک امریکی شہری ٹاڈ شے ہیں جو 2005 کے تباہ کن زلزلے کے دوران رضاکار کے طور پر پاکستان آئے اور یہاں کے لوگوں کے پیار اور محبت کی وجہ سے واپس نہیں لوٹے۔ یہ وہ دور تھا جب زلزلے نے 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنایا تھا۔ اس وجہ سے ٹاڈ شے نے پاکستان میں ہی قیام کو ترجیح دی اور سی ڈی آر ایس کے توسط سے قدرتی آفات میں عوامی امداد سمیت دیگر فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

ٹاڈ شے، ایک موسیقار جن کی زندگی میں نائن الیون کے بعد ڈرامائی موڑ آیا

ٹاڈ شے پیشے کے لحاظ سے ایک موسیقار تھے۔ ان کی زندگی میں ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب وہ نیویارک کے ایک محفل موسیقی میں بطور مہمان مدعو تھے، جہاں انہوں نے اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے نائن الیون واقعے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹرز کی عمارتوں کو جلتے دیکھا۔ اسی لمحے انہوں نے اپنا ستار رکھا اور لوگوں کی مدد کرنے وہاں پہنچ گئے۔

اس واقعے کے بعد انہوں نے خود کو عالمی سطح پر فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقف کیا۔ یوں سی ڈی آر ایس نے ٹاڈ شے کی قیادت میں 2005 سے لے کر اب تک پاکستان میں کئی امدادی مہمات سرانجام دیں، جس میں یتامی اور بیواؤں کے پروگرام، آٹھ سو زیادہ صاف پانی کے منصوبے، سوات اور کھاریاں میں صحت مراکز کا قیام ، خوراک کی تقسیم ، خواتین کو با اختیار بنانے، کاروبار کے مواقع پیدا کرنے، اندرون سندھ اور پنجاب میں گھر بنانے، سکولوں اور مساجد کی تعمیرات سمیت دیگر کئی منصوبے شامل ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں