وہ دن، وہ اذان، وہ صحن ؛ ہائے مدرسہ!

جس مدرسے میں جانے کے لیے کبھی دل نہیں کرتا تھا، جس کا نام سنتے ہی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، جہاں روتے ہوئے قدم پڑتے تھے، آج اسی مدرسے کی یاد دل کو رُلا دیتی ہے۔ تب وہ رونا مجبوری تھا، آج وہی رونا خواہش بن گیا ہے۔ تب دل چاہتا تھا کسی طرح چھٹی مل جائے، بس گھر پہنچ جائیں، اماں کی گود نصیب ہو جائے، مگر آج دل چاہتا ہے کہ زندگی کے سارے جھنجھٹوں سے چھٹی مل جائے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھر سے اسی مدرسے کی چٹائی پر جا بیٹھیں۔

وہ صبحیں جب فجر سے پہلے آنکھ کھلتی تھی، نیند سے بوجھل جسم، سرد پانی سے وضو، کانپتے ہاتھ، اور پھر صف میں کھڑے ہو کر دل ہی دل میں گھر کو یاد کرنا—تب یہ سب مشکل لگتا تھا، آج یہی سب خواب بن چکا ہے۔ وہ اذان کی آواز، وہ خاموش صحن، وہ ٹھنڈی ہوا، آج دل ترس جاتا ہے ان لمحوں کے لیے۔

کل جن اساتذہ سے ڈرتے تھے، جن کی آواز سنتے ہی دل دھڑکنے لگتا تھا، آج انہی اساتذہ کی ایک جھلک کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ آج سمجھ آتا ہے کہ وہ سختی نہیں تھی، وہ ہماری حفاظت تھی۔ وہ ڈانٹ نہیں تھی، وہ محبت تھی جو ہمیں انسان بنا رہی تھی۔ دل چاہتا ہے جا کر ان کے قدموں میں بیٹھ جائیں، ان کے ہاتھ چوم لیں، اور کہہ دیں: حضرت! آپ نے جو کہا تھا، وہی سچ تھا۔

کل جن کلاسوں سے بھاگنے کے لیے بہانے تلاش کرتے تھے، آج انہی کلاسوں میں جانے کے لیے دل بے چین ہے۔ آج دل چاہتا ہے پھر سے استاد تختہ پر لکھیں، ہم خاموشی سے سنتے رہیں، وقت گزر جائے اور ہمیں خبر بھی نہ ہو۔ آج زندگی کے سبق بہت کڑوے ہیں، کاش پھر سے وہی سادہ سبق، وہی معصوم سوال نصیب ہو جائیں۔

کل جن ساتھیوں سے ہنسی مذاق میں لڑتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے تھے، آج انہی ساتھیوں کی آوازیں دل میں گونجتی ہیں۔ وہ قہقہے، وہ راتوں کی پڑھائی، وہ ایک دوسرے کے لیے جاگنا، وہ چھپ چھپ کر باتیں کرنا—سب یادیں بن کر دل میں اتر گئی ہیں۔ آج انہیں ڈھونڈنے کو دل کرتا ہے، مگر سب اپنی اپنی زندگیوں میں بکھر گئے ہیں۔

مدرسہ، کہنے کو تو ایک جگہ تھی، مگر حقیقت میں وہ دلوں کا گھر تھا۔ وہاں سکون تھا، وہاں برکت تھی، وہاں دل صاف تھے۔ وہاں خواہشیں کم تھیں مگر دل بہت امیر تھا۔ آج دنیا بہت بڑی ہو گئی ہے، مگر دل خالی خالی سا ہے۔ لگتا ہے ہم اپنا سکون، اپنی بے فکری، اپنی سادگی سب وہیں چھوڑ آئے ہیں۔

وہ دعاؤں بھری راتیں، وہ آنسوؤں والے سجدے، وہ اللہ سے بے تکلف باتیں—سب وہیں رہ گئیں۔ آج دنیا میں سب کچھ ہے، مگر وہ سکون نہیں جو مدرسے کے ایک کمرے میں ملتا تھا۔ واقعی، ہم جس مدرسے سے نکلنا چاہتے تھے، آج وہی مدرسہ ہمیں آواز دے رہا ہے اور دل خاموشی سے بس یہی کہتا ہے:
کاش ایک بار پھر طالبِ علم بن کر، اسی مدرسے کے صحن میں بیٹھنا نصیب ہو جائے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں