امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ، غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے حوالے سے حوصلہ افزا پیش رفت ہو رہی ہے اور ان کے مطابق، موجودہ حالات میں جنگ کے خاتمے کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ یہ بیان انہوں نے پیر کی شب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے دوران دیا۔
اس موقع پر نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ، انہوں نے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا ہے اور اس حوالے سے امن کمیٹی کو ایک خط بھی بھجوایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، ٹرمپ مختلف ممالک اور خطوں میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ ملاقات صدر ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کے درمیان تیسری ملاقات تھی، تاہم ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ، ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں اور امریکی مدد سے ایرانی بیلسٹک میزائلوں کو ناکام بنانے کے بعد یہ ان کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، حماس 21 ماہ سے جاری غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے تیار ہے اور جنگ بندی کے حق میں ہے۔ ان کے مطابق، قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ بالواسطہ مذاکرات اگرچہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، تاہم رواں ہفتے دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ، غزہ میں امن کے قیام میں کیا چیز رکاوٹ بن رہی ہے تو صدر ٹرمپ نے کہاکہ،میرے خیال میں کوئی رکاوٹ نہیں، معاملات بہت اچھی سمت میں جا رہے ہیں۔
صحافیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو ممکنہ طور پر منتقل کرنے کے منصوبوں سے متعلق سوال پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ، اسرائیل کو ہمسایہ ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ، اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر ایسے ممالک کی تلاش میں ہے جو فلسطینیوں کو ’’بہتر مستقبل‘‘ فراہم کر سکیں۔
نیتن یاہو کا کہنا تھاکہ،اگر لوگ رہنا چاہتے ہیں تو وہ رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت ہونی چاہیے۔
ادھر وائٹ ہاؤس میں عشائیے کے دوران ہونے والے مذاکرات میں مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی شریک تھے، جنہوں نے بتایا کہ، ایران کے ساتھ مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہو سکتے ہیں۔
تاہم ایران نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ، جب تک امریکہ اسے یہ یقین دہانی نہیں کراتا کہ، مزید کوئی فوجی کارروائی نہیں ہوگی، تب تک وہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کو سنجیدہ نہیں سمجھتا۔