انڈین ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اُتارنا محض ایک لمحاتی لغزش نہیں، یہ ایک سوچ، ایک رویّے اور ایک پورے دعوے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں اقتدار کی بے لگامی، عورت کی تذلیل اور مذہبی شعائر کی توہین ایک ہی فریم میں سمٹ آتی ہیں—اور پھر کوئی شرمندگی باقی نہیں رہتی۔
اپوزیشن جماعت کانگریس کا استعفے کا مطالبہ محض سیاسی نعرہ نہیں، یہ عوامی غیرت کی بازگشت ہے۔ ایک خاتون ڈاکٹر، جو اپنی محنت اور قابلیت کی بنیاد پر اپائنٹمنٹ لیٹر لینے آئی، اس کی پیشہ ورانہ شناخت پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا—اس کی مذہبی شناخت نوچنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بدتمیزی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر یہ ناقابلِ معافی نہیں، تو پھر معافی کا مفہوم ہی کیا رہ جاتا ہے؟
ہر مذہب کے اپنے شعائر ہوتے ہیں—جن کا احترام سب پر واجب ہے۔ کیا کبھی کسی مسلمان نے کسی سکھ کی پگڑی اتارنے کی جسارت کی؟ کیا کسی مسلمان نے کسی کے گلے میں لٹکی صلیب کھینچنے کی کوشش کی؟ کیا کسی مسلمان نے کسی انگریز خاتون کے لباس پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق مانگا؟ یا کسی یہودی ربی کے مخصوص لباس اور ٹوپی کی توہین کی؟ اگر جواب نفی میں ہے—اور ہے—تو پھر ایک مسلمان خاتون کے حجاب پر ہاتھ ڈالنے کا حق کس نے دیا؟
یہ واقعہ غیر مذہبی ہی نہیں، غیر شائستہ اور غیر اخلاقی بھی ہے۔ بھارت خود کو سیکولر اسٹیٹ کہتا ہے، مگر سیکولرازم اگر کمزور کی شناخت پر حملے کا نام ہے تو ایسے سیکولرازم کو سلام نہیں، سوال درکار ہیں۔ جب ایک ریاست کا وزیرِ اعلیٰ خود آئین کی روح کے منہ پر طمانچہ رسید کرے تو پھر اقلیتوں سے صبر کی تلقین کھوکھلی لگتی ہے۔
بھارت میں مسلمان کوئی حاشیے پر کھڑی اقلیت نہیں۔ کروڑوں کی آبادی، ملک کا دوسرا بڑا مذہبی گروہ—کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ایسے واقعات اُن کے دلوں میں کیا زخم چھوڑتے ہیں؟ خاص طور پر اُن ریاستوں میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ یہ صرف ایک خاتون کا حجاب نہیں اترا، یہ لاکھوں آنکھوں میں عدم تحفظ کا پردہ سرک گیا ہے۔
دنیا بھر میں مذاہب کے درمیان بڑھتی عصبیت ایک خوفناک رجحان ہے۔ یہ تعلیم یافتہ معاشروں کی علامت نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا اعلان ہے۔ طاقت اگر تہذیب نہ سکھا سکے تو طاقت فتنہ بن جاتی ہے۔ ریاستی عہدہ اگر احترام نہ سکھا سکے تو وہ محض کرسی رہ جاتی ہے—وقار نہیں۔
وقت ہے کہ بھارت اپنے سیکولر ہونے کے دعوے کو عمل سے ثابت کرے۔ ورنہ تاریخ ایسے مناظر محفوظ رکھتی ہے—اور پھر معافی نامے نہیں، فیصلے لکھتی ہے۔
اسلامی تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں وصف حفظِ مراتب، احترامِ انسان اور مذہبی تقدس کی پاسداری ہے، اور یہ کوئی جذباتی دعویٰ نہیں بلکہ قرآن، سنت اور تاریخ سے ثابت حقیقت ہے۔ قرآنِ مجید صاف اعلان کرتا ہے: “وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ” (بنی اسرائیل: 70) — یعنی اللہ نے ہر انسان کو، اس کے مذہب و قوم سے قطع نظر، عزت بخشی۔ یہی اصول اسلامی تمدن کی بنیاد ہے۔ اسی طرح دین کے معاملے میں جبر سے روک دیا گیا: *”لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ” (البقرہ: 256)۔ جب ایمان میں جبر نہیں تو لباس، شعار اور مذہبی علامات میں دست درازی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟
نبی اکرم ﷺ کی سیرت اس احترام کی عملی تصویر ہے۔ مدینہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ میثاقِ مدینہ ہو یا نجران کے عیسائی وفد کو مسجدِ نبوی میں عبادت کی اجازت دینا—یہ واقعات اسلامی رواداری کے زندہ شواہد ہیں۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں غیر مسلم رعایا کے معابد کا تحفظ ریاستی ذمہ داری سمجھا گیا۔ حضرت عمرؓ کا بیت المقدس میں کلیسا میں نماز نہ پڑھنا محض احتیاط نہیں تھا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مذہبی احترام کا ضابطہ تھا۔
بھارت کی اپنی تاریخ میں بھی اسی اسلامی تربیت کی جھلک ملتی ہے۔ سابق صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام—ایک مسلمان، ایک سائنس دان، اور ایک قومی رہنما—مندروں، گوردواروں اور گرجا گھروں میں احترام کے ساتھ جاتے، ہندو مذہبی پیشواؤں سے عقیدت اور وقار کے ساتھ ملتے، اور کبھی کسی کے مذہبی شعار پر انگلی نہیں اٹھائی۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ مذاہب انسان کو جوڑنے کے لیے ہوتے ہیں، توڑنے کے لیے نہیں۔ یہ محض بیان نہیں، اسلامی اخلاق کا عملی اظہار تھا۔
اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں جہاں مسلم حکمرانوں نے اکثریتی یا اقلیتی مذہب کے شعائر کا احترام کیا۔ برصغیر میں صوفیاء کی درگاہیں ہوں یا مسلم سلاطین کے جاری کردہ تحفظِ عبادت گاہ کے فرامین—یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام تصادم نہیں، تہذیبی بقائے باہمی سکھاتا ہے۔
سوال پھر وہی ہے: اگر اسلام اپنے پیروکاروں کو مخالف عقیدے کے ماننے والوں کے ساتھ بھی احترام، ضبط اور وقار سکھاتا ہے تو ایک سیکولر ریاست کا وزیرِ اعلیٰ اس بنیادی اخلاقی اصول سے کیسے بے خبر ہو سکتا ہے؟ مسئلہ مذہب کا نہیں، نیت اور تربیت کا ہے۔ جب اقتدار انڈین ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اُتارنا محض ایک لمحاتی لغزش نہیں، یہ ایک سوچ، ایک رویّے اور ایک پورے دعوے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں اقتدار کی بے لگامی، عورت کی تذلیل اور مذہبی شعائر کی توہین ایک ہی فریم میں سمٹ آتی ہیں—اور پھر کوئی شرمندگی باقی نہیں رہتی۔
اپوزیشن جماعت کانگریس کا استعفے کا مطالبہ محض سیاسی نعرہ نہیں، یہ عوامی غیرت کی بازگشت ہے۔ ایک خاتون ڈاکٹر، جو اپنی محنت اور قابلیت کی بنیاد پر اپائنٹمنٹ لیٹر لینے آئی، اس کی پیشہ ورانہ شناخت پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا—اس کی مذہبی شناخت نوچنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بدتمیزی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر یہ ناقابلِ معافی نہیں، تو پھر معافی کا مفہوم ہی کیا رہ جاتا ہے؟
ہر مذہب کے اپنے شعائر ہوتے ہیں—جن کا احترام سب پر واجب ہے۔ کیا کبھی کسی مسلمان نے کسی سکھ کی پگڑی اتارنے کی جسارت کی؟ کیا کسی مسلمان نے کسی کے گلے میں لٹکی صلیب کھینچنے کی کوشش کی؟ کیا کسی مسلمان نے کسی انگریز خاتون کے لباس پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق مانگا؟ یا کسی یہودی ربی کے مخصوص لباس اور ٹوپی کی توہین کی؟ اگر جواب نفی میں ہے—اور ہے—تو پھر ایک مسلمان خاتون کے حجاب پر ہاتھ ڈالنے کا حق کس نے دیا؟
یہ واقعہ غیر مذہبی ہی نہیں، غیر شائستہ اور غیر اخلاقی بھی ہے۔ بھارت خود کو سیکولر اسٹیٹ کہتا ہے، مگر سیکولرازم اگر کمزور کی شناخت پر حملے کا نام ہے تو ایسے سیکولرازم کو سلام نہیں، سوال درکار ہیں۔ جب ایک ریاست کا وزیرِ اعلیٰ خود آئین کی روح کے منہ پر طمانچہ رسید کرے تو پھر اقلیتوں سے صبر کی تلقین کھوکھلی لگتی ہے۔
بھارت میں مسلمان کوئی حاشیے پر کھڑی اقلیت نہیں۔ کروڑوں کی آبادی، ملک کا دوسرا بڑا مذہبی گروہ—کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ایسے واقعات اُن کے دلوں میں کیا زخم چھوڑتے ہیں؟ خاص طور پر اُن ریاستوں میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ یہ صرف ایک خاتون کا حجاب نہیں اترا، یہ لاکھوں آنکھوں میں عدم تحفظ کا پردہ سرک گیا ہے۔
دنیا بھر میں مذاہب کے درمیان بڑھتی عصبیت ایک خوفناک رجحان ہے۔ یہ تعلیم یافتہ معاشروں کی علامت نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا اعلان ہے۔ طاقت اگر تہذیب نہ سکھا سکے تو طاقت فتنہ بن جاتی ہے۔ ریاستی عہدہ اگر احترام نہ سکھا سکے تو وہ محض کرسی رہ جاتی ہے—وقار نہیں۔
وقت ہے کہ بھارت اپنے سیکولر ہونے کے دعوے کو عمل سے ثابت کرے۔ ورنہ تاریخ ایسے مناظر محفوظ رکھتی ہے—اور پھر معافی نامے نہیں، فیصلے لکھتی ہے۔
اسلامی تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں وصف حفظِ مراتب، احترامِ انسان اور مذہبی تقدس کی پاسداری ہے، اور یہ کوئی جذباتی دعویٰ نہیں بلکہ قرآن، سنت اور تاریخ سے ثابت حقیقت ہے۔ قرآنِ مجید صاف اعلان کرتا ہے: “وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ” (بنی اسرائیل: 70) — یعنی اللہ نے ہر انسان کو، اس کے مذہب و قوم سے قطع نظر، عزت بخشی۔ یہی اصول اسلامی تمدن کی بنیاد ہے۔ اسی طرح دین کے معاملے میں جبر سے روک دیا گیا: *”لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ” (البقرہ: 256)۔ جب ایمان میں جبر نہیں تو لباس، شعار اور مذہبی علامات میں دست درازی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟
نبی اکرم ﷺ کی سیرت اس احترام کی عملی تصویر ہے۔ مدینہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ میثاقِ مدینہ ہو یا نجران کے عیسائی وفد کو مسجدِ نبوی میں عبادت کی اجازت دینا—یہ واقعات اسلامی رواداری کے زندہ شواہد ہیں۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں غیر مسلم رعایا کے معابد کا تحفظ ریاستی ذمہ داری سمجھا گیا۔ حضرت عمرؓ کا بیت المقدس میں کلیسا میں نماز نہ پڑھنا محض احتیاط نہیں تھا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مذہبی احترام کا ضابطہ تھا۔
بھارت کی اپنی تاریخ میں بھی اسی اسلامی تربیت کی جھلک ملتی ہے۔ سابق صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام—ایک مسلمان، ایک سائنس دان، اور ایک قومی رہنما—مندروں، گوردواروں اور گرجا گھروں میں احترام کے ساتھ جاتے، ہندو مذہبی پیشواؤں سے عقیدت اور وقار کے ساتھ ملتے، اور کبھی کسی کے مذہبی شعار پر انگلی نہیں اٹھائی۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ مذاہب انسان کو جوڑنے کے لیے ہوتے ہیں، توڑنے کے لیے نہیں۔ یہ محض بیان نہیں، اسلامی اخلاق کا عملی اظہار تھا۔
اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں جہاں مسلم حکمرانوں نے اکثریتی یا اقلیتی مذہب کے شعائر کا احترام کیا۔ برصغیر میں صوفیاء کی درگاہیں ہوں یا مسلم سلاطین کے جاری کردہ تحفظِ عبادت گاہ کے فرامین—یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام تصادم نہیں، تہذیبی بقائے باہمی سکھاتا ہے۔
سوال پھر وہی ہے: اگر اسلام اپنے پیروکاروں کو مخالف عقیدے کے ماننے والوں کے ساتھ بھی احترام، ضبط اور وقار سکھاتا ہے تو ایک سیکولر ریاست کا وزیرِ اعلیٰ اس بنیادی اخلاقی اصول سے کیسے بے خبر ہو سکتا ہے؟ مسئلہ مذہب کا نہیں، نیت اور تربیت کا ہے۔ جب اقتدار تہذیب سے خالی ہو جائے تو ہاتھ حجاب کی طرف بڑھتے ہیں—اور یہی لمحہ کسی ریاست کے اخلاقی زوال کی پہچان بن جاتا ہے۔