نئی دنیا کی سفارتی شطرنج

دنیا اپنی شکل بدل رہی ہے، طاقت کے مراکز کہیں دھندلا رہے ہیں، کہیں اُبھر رہے ہیں۔ وہ عالمی نظام، جس میں ایک طویل عرصے سے امریکہ کی بالادستی قائم تھی، اب آہستہ آہستہ ریزہ ریزہ ہو رہا ہے اور اس کے ملبے سے ایک نیا، کثیر قطبی ورلڈ آرڈر جنم لے رہا ہے۔ یہ تبدیلی اب صرف سرگوشیوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ گرج دار آواز بن چکی ہے۔ اس گرج میں پاکستان، بھارت، چین، روس اور امریکہ، سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔

چین، جسے کبھی صرف ایک ابھرتی معیشت کہا جاتا تھا، آج عالمی طاقت کی مسند پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ حالیہ فوجی پریڈ میں، جس میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن شریک تھے، بیجنگ نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ ہائپرسونک میزائل، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور جدید ڈرونز کی نمائش کے ساتھ صدر شی جن پنگ نے یہ سوال اٹھایا: ’’دنیا امن چاہتی ہے یا جنگ؟‘‘ یہ سوال دراصل اعلان تھا کہ چین اب عالمی سیاست کا صرف شریک نہیں، بلکہ قائد بننے کا خواہاں ہے۔

پاکستان اپنی سفارتی بساط پر بڑی احتیاط سے مہرے آگے بڑھا رہا ہے۔ ایک طرف CPEC جیسے منصوبوں کے ذریعے چین کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا رہا ہے، تو دوسری جانب امریکہ سے بھی مکمل ناطہ توڑنے سے گریزاں ہے۔ حالیہ دنوں میں چین نے زرعی، توانائی اور صحت کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، مگر ساتھ ہی CPEC کے بعض منصوبوں پر اپنی ترجیحات بدلنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ عندیہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے لیے صرف ایک طاقت پر انحصار کرنا آسان نہیں ہوگا۔

بھارت کی کہانی مختلف ہے۔ نریندر مودی نے ’’اسٹریٹیجک خودمختاری‘‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نعرہ بنایا ہے، لیکن جب امریکہ نے حال ہی میں بھارتی مصنوعات پر بھاری ٹیرف لگا دیا، اور روس سے تیل خریدنے پر سوالات اٹھائے، تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ عالمی سیاست میں مستقل دوست نہیں ہوتے، صرف مفادات ہوتے ہیں۔ بھارت اگرچہ اپنی الگ شناخت بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس توازن کو برقرار رکھنا اس کے لیے بھی آسان نہیں رہا۔

روس مغربی پابندیوں کے بوجھ تلے دب کر اب ایشیائی اتحادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ محتاط انداز میں بڑھتے تعلقات، عسکری تعاون اور توانائی کے منصوبے اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ روس اب اپنے پرانے اتحادی بھارت کو ناراض کیے بغیر پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش میں ہے۔

امریکہ کی کہانی سب سے نرالی ہے۔ کبھی اس کے ایک فون پر دنیا کی پالیسیاں بدل جاتی تھیں، مگر آج وہ اندرونی سیاسی تقسیم، یورپ میں جاری جنگ، اور ایشیا میں بڑھتے چینی اثرورسوخ سے پریشان ہے۔ واشنگٹن اب بھارت کو چین کے مقابلے میں توازن قائم رکھنے کے لیے اہم سمجھتا ہے، مگر بھارت کی آزاد روش، اور روس سے قربت نے اسے مخمصے میں ڈال دیا ہے۔

دنیا واقعی ایک بڑی سفارتی شطرنج بن چکی ہے۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ چین سے فائدہ اٹھائے، امریکہ کو بھی ناراض نہ کرے اور روس کو بھی قریب رکھے۔ بھارت اپنی الگ پہچان بنانے کے سفر پر ہے۔ چین قیادت کے خواب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور روس نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔ امریکہ اب اس سب کو روکنے کے بجائے، نئے عالمی نظام میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد میں ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں فیصلے تاریخ لکھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اب وقت ہے کہ وقتی مفادات کے بجائے طویل المدتی استحکام کو سامنے رکھ کر ایک واضح خارجہ پالیسی اختیار کرے۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ طاقت صرف فوج اور معیشت سے نہیں، بلکہ پائیدار اتحادوں سے آتی ہے۔ چین کو قائد بننے کے لیے اعتماد جیتنا ہوگا، اور روس کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے اتحادی صرف وقتی نہ ہوں۔ امریکہ کو بھی ماننا ہوگا کہ وہ واحد عالمی رہنما نہیں رہا، بلکہ اب دنیا بدل رہی ہے، اور اسے بھی اس نئی بساط پر نئی چال سیکھنی ہوگی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں