نیپال کے وزیراعظم کھڑگا پرساد اولی نے منگل کے روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر پابندی اور حکومتی بدعنوانی کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے پُرتشدد صورت اختیار کر گئے۔
سوموار کو کٹھمنڈو اور دیگر شہروں میں لاکھوں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر پارلیمان کا گھیراؤ کیا۔ پولیس کی فائرنگ سے کم از کم 19 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جن میں کئی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق زیادہ تر زخمیوں کو سر اور سینے میں گولیاں لگی ہیں۔
مظاہرین نے دارالحکومت اور مضافات میں اہم سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا، جن میں نیپالی کانگریس کے سربراہ شیر بہادر دیوبا، صدر رام چندرا پؤڈیل، وزیر داخلہ رمیش لیکھک اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پشپ کمال دہال کے مکانات شامل ہیں۔ دیوبا کی اہلیہ اور وزیر خارجہ ارزُو دیوبا رانا کے زیرِ ملکیت ایک نجی اسکول کو بھی آگ لگا دی گئی۔
عینی شاہدین اور مقامی میڈیا کے مطابق، مظاہرین کا غصہ صرف سوشل میڈیا پر پابندی تک محدود نہیں رہا بلکہ برسوں سے جاری بدعنوانی اور سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں کے خلاف عوامی نفرت میں بدل گیامظاہروں کے پیش نظر کٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔
پولیس نے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے شہریوں کو گھروں کو واپس جانے کی ہدایت کی، مگر اس کے باوجود کئی مقامات پر احتجاج جاری رہا۔
سوشل میڈیا پر پابندی گذشتہ ہفتے اس وقت لگائی گئی تھی جب فیس بک، یوٹیوب اور ایکس (سابق ٹوئٹر) جیسی کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے مقامی رجسٹریشن اور براہِ راست نگرانی کی شرط ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ناقدین نے اس اقدام کو آزادیِ اظہار پر حملہ اور اپوزیشن کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
وزیراعظم اولی نے اپنے بیان میں جاں بحق افراد کے لیے معاوضے اور زخمیوں کے مفت علاج کا اعلان کرتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کرنے کا کہا تھا۔ تاہم کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے بھی استعفیٰ دے دیا۔