کبھی کبھی کچھ الفاظ دل پر یوں چبھتے ہیں جیسے تیر ہوں، اور جب یہ تیر اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں چلیں تو زخم اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ آج کل افغانیوں کو “نمک حرام” کہہ کر جو دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے، ذرا پلٹ کر خود کو اسی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ اگر وہی افغانی پلٹ کر آپ کو “منافق” کہہ دیں یا ذرا اور کھل کر “قاتل” کا لقب دے دیں، تو آپ کیا گوارا کریں گے؟ کیسا محسوس کریں گے؟ شاید وہی جو آج وہ محسوس کرتے ہیں، دکھ، تکلیف، بےبسی اور غصہ۔
بات تلخ ہے، مگر حقیقت سے آنکھ چرا لینا بیماری کا علاج نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہی تھے جنہوں نے امریکا کو اڈے دیے، ہم ہی تھے جنہوں نے ان کے جہازوں کو اپنی زمین سے اڑنے دیا، ہم ہی تھے جنہوں نے دشمن کو سہولتیں فراہم کیں۔ پھر انہی جہازوں نے افغانستان پر بارود برسایا، معصوموں کو خاک و خون میں نہلایا، اور ہم؟ ہم خاموش تماشائی تھے یا شاید کہیں نہ کہیں دل میں مطمئن بھی تھے۔ اگر واقعی ایسا تھا، تو اب وقت ہے کہ اپنے ایمان پر، اپنے ضمیر پر اور اپنی تاریخ پر ایک بار نظر ضرور ڈالیں۔
ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، وہ قربانیاں دیتی ہے، دشمن کے آگے سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے۔ 1965 میں ہم نے یہ بھی دیکھا، مگر 1971 کا زخم بھی ہماری یادوں کا حصہ ہے اور وہ بھی اسی فوج کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ فرق نیتوں کا، فیصلوں کا اور اللہ کی رضا کا بھی ہوتا ہے۔ جب رب ناراض ہو تو طاقت بھی بےبس ہو جاتی ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ صرف طاقت ہی نہیں، حکمت اور انصاف بھی ضروری ہے۔
جو کہتے ہیں کہ افغانستان پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، وہ شاید بھول گئے ہیں کہ افغانستان کے بیابانوں میں یورپ کی جدید ترین افواج، نیٹو، امریکا اور روس جیسی عالمی قوتیں اپنی شکست کا زخم چاٹتے ہوئے واپس گئیں۔ یہ وہی افغان تھے جنہیں تم آج “نمک حرام” کہتے ہو۔ اگر آج وہ جنگ بندی کی بات کرتے ہیں، تو یہ ان کی کمزوری نہ سمجھیں۔ اس کا مذاق اڑانا؟ اس پر خوش ہونا؟ یہ کم ظرفی ہے اور بدبختی بھی، کیونکہ جنگ کسی بھی طرف سے ہو، مرنے والے مسلمان ہوں گے۔ ان کے جنازے بھی کلمہ پڑھنے والے ہی پڑھیں گے، ان کے بچے بھی “ابا” کو پکاریں گے، ان کی بیویاں بھی بیوگی کی چادر اوڑھیں گی۔ گولہ کسی کا بھی گرے، چھت مسلمانوں کی گرے گی، گھر انہی کے جلیں گے اور یتیمی کا داغ انہی کے بچوں کی پیشانی پر ہوگا۔ کوئی بھی فریق جیتے، اصل میں ہار صرف امتِ مسلمہ کی ہوگی۔
یہ وقت جنگ کا نہیں، یہ وقت رک کر سوچنے کا ہے۔ اگر بھائی بھائی سے لڑے گا، تو اصل جیت تو ان کی ہوگی جو ہمیشہ سے ہمیں تقسیم دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ایک بھائی طاقت کے لیے غیر سے مدد مانگتا ہے تو صرف وہی نہیں، وہ دوسرا بھائی بھی شرمندگی کا حصہ بنتا ہے جس نے اسے اس حد تک مجبور کر دیا۔
تو اے لفظوں کے مجاہد! اے زبان کی توپ چلانے والو! اپنے لہجے کو لگام دو۔ “نمک حرام” کہنا آسان ہے، لیکن اس لفظ کا بوجھ خود پر رکھ کر تو دیکھو، شاید سچ تمہیں بھی ہلا دے۔ کسی قوم کی قربانیوں، تکلیفوں اور عزتِ نفس کو روند کر کبھی سچائی نہیں جیتی، نہ کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
اپنی بات کو ختم کرنے سے پہلے بس اتنا کہنا چاہوں گا، اگر امن کو مذاق بنائیں گے، اگر زخموں پر نمک چھڑکیں گے، اگر اپنی ہی صفوں میں دشمن تلاش کریں گے، تو پھر دشمن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، ہم خود ہی کافی ہوں گے ایک دوسرے کو مٹانے کے لیے۔
خدارا! بولنے سے پہلے سوچیں۔ دشمنی سے پہلے سمجھیں اور تنقید سے پہلے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جسے تم “نمک حرام” کہہ رہے ہو، وہ کل تمہیں “قاتل” کہتا پھرے.
پاک فوج زندہ باد : پاکستان پائندہ باد