مالاکنڈ کے مقامی شہری سپریئر کے ذریعے پہاڑوں میں لگی آگ کیسے بجھا رہے ہیں؟

اس وقت پاکستان کے متعدد شہروں میں موجود پہاڑوں کو خوفناک آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بلوچستان، بونیر اور آزاد کشمیر سمیت خیبر پختونخوا ءکے ضلع مالاکنڈ کے پہاڑوں پر بھی آگ کے شعلے آسمان کی طرف بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ تقریبا گزشتہ آٹھ روز سے لگی اس آگ سے اب تک کئی پہاڑوں پر درخت جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ ریسکیو ٹیموں سمیت مقامی شہری بھی اپنے تئیں آگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

مالاکنڈ کے مختلف عوامی فلاحی تنظیموں پر مشتمل کارکنان آگ بجھانے کے لیے سپریئر کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ روزانہ یہ شہری رات دیر تک مشاورت کے بعد علی الصبح پہاڑوں پر جاتے ہیں اور آگ بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

مجیب الرحمان ضلع مالاکنڈ کی تحصیل درگئی سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ہے جبکہ خیرالناس فلاحی تنظیم کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔مجیب گزشتہ چار سالوں سے آگ سے بچاؤ کے لیے نہ صرف آگاہی مہم چلا رہے ہیں بلکہ عملی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کے لیے پہاڑوں پر جانے والی آپریشن ٹیم کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔

تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ ‘پہاڑوں پر آگ لگنے کے یہ واقعات ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں۔ تاہم، حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم کے بعد اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ‘

مجیب سال 2021 سےیہ کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’اسی سال یہاں کچھ پہاڑوں پر آگ لگی، اس وقت میرے پاس کاروبار کے سلسلے میں استعمال ہونے والی دو گاڑیاں تھی۔ حکومت کی جانب سے آگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے تھے۔ ابتدائی مرحلے میں ہم نے سڑک بند کرکے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ‘

‘اس کے بعد مساجد سے اعلانات کیے، گلی گلی جا کر مہم چلائی، جس میں ہماری ماؤں بہنوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔اس مہم کے نتیجے میں علاقے کے نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل ایک بڑی ٹیم نے پہاڑوں پر جا کر آگ بجھانے میں کردار ادا کیا۔ ہم نے حکومت کے سامنے پیشکش بھی رکھی کہ ہیلی کاپٹر کا خرچہ اٹھانے کے لیے ہم گھر گھر جا کر چندہ اکھٹا کرلیں گے لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ‘

مجیب الرحمان اس وقت بذات خود مقامی افراد پر مشتمل آگ بجھانے والی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ اس سے پہلے کم ہی پہاڑوں پر جاتے تھے اور ایسے کسی مہم کا حصہ بھی نہیں رہے تھے لیکن وہاں دل دہلادینے والے مناظر دیکھ کر انہوں نے خود کو اس کام کے لیے وقف کردیا۔

وہ کہتے ہیں کہ’اس آگ میں جانور جھلس کر مر رہے تھے، ان کی چیخ و پکار میرے کانوں میں ہر وقت گونجتی تھی۔پودوں میں موجود پرندوں کے گھونسلوں میں بچے تپش کی وجہ سے آوازیں لگا رہے تھے۔یہ منظر درد ناک اس وقت بنا جب ان کی ماں لوٹ کر آئیں اور آگ کو درمیان میں رکاوٹ پاکر بچوں تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتی رہیں۔بالآخر وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئیں اور جھلس کر راکھ ہوگئیں۔ نہ جانے اور کتنے پرندے جلتے مرتے میں نے اس وقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں۔ ‘

شہد کی مکھیاں، لومڑیاں،بندر، بکریاں اور مختلف اقسام کے جانور وں کو اس خوفناک آگ نے جلا کر مار دیا تھا۔ ایک ہفتے تک مسلسل اس آپریشن میں مجیب الرحمان نے حصہ لیا تھا، جس کے بعد وہ باقاعدگی سے آگ بجھانے میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیتے ہیں جبکہ آگاہی مہم بھی چلاتے ہیں۔

پہاڑوں پر آگ بجھانے کے لیے مقامی افراد کیا کرتے ہیں؟

آگ لگنے کے بعد مجیب الرحمان اور ان کے ساتھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آپریشن کا آغاز کرتے ہیں۔ اس وقت بھی مالاکنڈ کے کئی پہاڑوں پر آگ لگ گئی ہے، جو آئے روز بڑھتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ آگ لگتے ہی میں دوستوں کو مشاورت کے لیے بلاتا ہوں۔ جہاں ہم مختلف پہلوؤں پر بحث کرتے ہیں کہ آگ کس طرف پھیل رہی ہے اور کہاں سے اس کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آپریشن میں شامل افراد کے بستوں میں پانی ،انرجی ڈرنکس اور دیگر ضروری سامان رکھ دیتے ہیں۔ ‘

مجیب الرحمان اور ان کے ساتھیوں کو علاقے کے مخیر افراد نے آگ بجھانے کے سپریئر اور مٹکے عطیہ کیے ہیں۔ان کے مطابق اس کو پانی سے بھر کر نوجوان پہاڑوں پر پہنچاتے ہیں۔ سپریئر آگ بجھانے میں بہت کارآمد ثابت ہوا ہے۔ خاص طور پر بڑے شعلوں کو کم کرنے میں یہ اچھا کام کرتے ہیں۔

عام حالات میں مجیب الرحمان آگ سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم بھی چلا تے ہیں اور ایسے افراد کو تلاش کرتے ہیں جو آگ لگنے کے بعد ان کے ساتھ آپریشن میں رضاکارانہ طور پر حصہ لے سکیں۔ اس کے علاوہ مجیب قلب فلاحی تنظیم کے تحت اپنے علاقے میں شجرکاری، عطیہ خون، سیاحت، اور تعلیم کے حوالے بھی عوام میں آگاہی مہمات کا انتظام کرتے ہیں۔

پہاڑوں پر آگ لگنے کی کیا وجوہات ہیں؟

ہمارے ہاں عام تصور ہے کہ سرکاری اداروں کے لوگ پہاڑوں پر آگ لگنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن مجیب الرحمان اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا ماننا ہے کہ ‘پہاڑوں پر آگ لگنے کی متعدد وجوہات ہیں۔عمومی طور پر ہمارے لوگ پہاڑوں پر جا کر وہاں شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں پھینک آتے ہیں، جس پران دنوں سخت دھوپ لگنے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ پہاڑوں پر فائرنگ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ‘

مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے خان زمان شاہ بھی مجیب کے ساتھ ٹیم کاحصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہاں لوگ اپنی زمینوں کو صاف کرنے کی عرض سے جھاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں، جس کے بعد اس کا دائرہ وسیع ہو کر اس کے کنٹرول سے نکل جاتا ہے۔میں تو یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ ہمارے اپنے لوگ سیر کے لیے جاتے ہیں اور وہاں کھانا بنانے کا اہتمام کرتے ہیں لیکن واپسی پر آگ کو پوری طرح سے نہیں بجھاتے، جس کی وجہ سے وہ پھیل جاتی ہے۔’

ان کے مطابق ہمارے بزرگ پہلے پہل ان واقعات کی روک تھام کے لیے قیادت سنبھال لیتے تھےلیکن اب وہ بھی حکومتی رویہ دیکھ کر اکثر خاموش رہتے ہیں۔ تاہم، علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنے منبروں کا استعمال کریں۔ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر مشتمل ایک اعلامیہ تو سامنے آیا تھا لیکن ہمارے اپنے لوگوں نے بھی اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔’

حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے مجیب الرحمان نے کہا کہ’ حکومت نے اب تک اس معاملے میں ہماری حوصلہ افزائی کے لیے کوئی مدد نہیں کی۔ حتی کہ آگ لگنے کے بعد ریسکیو کی ٹیمیں روانہ کردیتے ہیں، جو آگ بجھانے کی مجاز نہیں جبکہ ان کے پاس کوئی جدید سامان بھی موجود نہیں ہوتا۔اس وقت ہمارے کئی پہاڑ آگ کی لپیٹ میں ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ ریسکیو کی چند افراد پر مشتمل ٹیمیں اس کو بجھانے میں کامیاب ہوجائیں۔’

خان زمان شاہ نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ’ اس حوالے سے کوئی بھی اقدامات لینے سے پہلے ہم سے بھی مشاورت کیا کریں تاکہ بات صرف کاغذی کاررائیوں تک محدود نہ رہے۔’

Author

اپنا تبصرہ لکھیں