لاہور کے تعلیمی اداروں میں بکھری دلچسپ تاریخ

کوئی بھی شخص آج تک یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ اس نے لاہور کی تاریخ، ثقافت، تہذیب، ورثے اور اقدار کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ شہر اپنے آپ میں ایک سلطنت ہے۔ اس کا ورثہ اس کی تاریخ ختم ہی نہیں ہوتی۔ ہر سال کہیں کچھ نیا مل جاتا ہے اور تاریخ دان سر جوڑ لیتے ہیں جیسے لاہور نا ہوا عمرو عیار کی زنبیل ہو گیا جس میں سب کچھ مل جاتا ہے۔

یہ بات حقیقت ہے بھئی۔ یہاں سب کچھ پایا جاتا ہے۔
لاہور کو باغوں، کالجوں، عجائب گھروں، فلمی ستاروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کا کوئی ایک حوالہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کئی جہتیں رکھتا ہے اور اِس کی ہر جہت اپنی مثال آپ ہے۔ آج ہم اس کی ایک نئی جہت کو کھوجیں گے۔

لاہور شہر میں اگرچہ کئی پرانے اور نئے تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں سے چند ادارے بہت تاریخی ہیں۔ لیکن ان اداروں کے اندر بھی کچھ نا کچھ ایسا ہے جو انہیں دیگر سے منفرد بناتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں یا جگہیں ہیں جو ان اداروں کی خصوصیت کہلائی جا سکتی ہیں اور جو انہیں ممتاز بناتی ہیں۔
آئیں میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ لاہور کے قدیم اور تاریخی تعلیمی اداروں میں کیا کیا چھپا ہے۔

چھجو کا چوبارہ، میو اسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے بلاکس ؛

سن 1860 میں بنائی گئی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی جو اس سے پہلے میڈیکل کالج تھا، اِس خطے کا سب سے پہلا طبی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسے انگریز راج میں بطور لاہور میڈیکل سکول تعمیر کیا گیا تھا جسے دسمبر 1911 میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ادارے کا خیال تا 1857 میں ہی پیش کر دیا گیا تھا لیکن جنگ آزادی کی وجہ سے معاملہ لٹکا ہی رہا اور پھر 1960 میں یہ قائم ہوا جس کے پہلے پرنسپل کلکتہ کے ڈاکٹر آئی بی شریوان بنے۔

سال 1860ء میں یہ ادارہ آرٹلری بیرکس کے ساتھ ملحق تھا جس کی عمارت کو 1864ء میں انار کلی سے ملحقہ ایک ڈسپنسری کے پاس منتقل کر دیا گیا۔
1871 ء میں انارکلی ڈسپنسری کو ختم کرکے اس کی جگہ میو اسپتال قائم کیا گیا جس کا نام اُس وقت کے برطانوی راج کے سربراہ ”ایرل آف میو” کے نام پر رکھا گیا۔ یہ عمارت انجینیئر رائے بہادر کنیا لال نے تعمیر کی تھی۔ اسی سال اس کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے کر دیا گیا۔ نومبر 1960 میں ادارے کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر پاکستان پوسٹ نے دو یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیئے۔

میری نظر میں اس ادارے کی دو خاصیتیں ہیں۔ ایک تو یہاں ادارے سے منسلک اسپتال میں چھجو کے چوبارے جیسی اہم تاریخی جگہ چھپی ہوئی ہے جو پہلی بار کوئی بھی آسانی سے نہیں ڈھونڈ سکتا۔ یہ ایمرجنسی لیب کے سامنے شمس شہاب الدین صحت گاہ کے بیچ میں چھپا ہوا ہے اور یہ وارڈ اب خواتین کے لیئے مخصوص ہے۔
چھجو بھاٹیہ، شاہ جہاں کے دور کا ایک مشہور تاجر تھا جو اپنا سب کچھ تیاگ کر فقیر بن گیا۔ اس نے اپنی عبادت کے لیئے یہ چوبارہ تعمیر کروایا جس کے بارے مشہور ہے کہ یہ سیڑھیوں کے بغیر تھا اور چھجو لکڑی کی سیڑھی یہاں تک پہنچنے کے لیئے استعمال کرتا تھا۔ اوپر پہنچ کے وہ سیڑھی کھینچ لیتا تاکہ کوئی اس کی عبادت میں مخل نا ہو۔ مشہور ادیب سید محمد لطیف کے مطابق یہاں مختلف سمادھیوں، مندروں اور دھرم شالاؤں کا ایک کمپلیکس تھا جو نجانے کہاں گیا۔ چھجو بھگت بھی ایک دن اپنے چوبارے سے غائب ہو گیا۔ وہ کہاں گیا۔۔۔۔۔؟ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔

آج اس چوبارے کے نام پر فرشی صحن کے بیچ ایک کمرہ باقی ہے جس کی چھت کنول کے پھول سے مشابہت رکھتی ہے۔ اندر نقاشی کا کام اگرچہ دھندلا گیا ہے لیکن شیشے کا نفیس کام آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں یہ کام سونے کے پانی سے کیا گیا ہے۔ اس کمرے کو بطور مسجد استعمال کیا جا رہا ہے۔

ادارے کی دوسری خصوصیت اس کے وہ تاریخی بلاکس ہیں جو مختلف ریاستوں کی امداد سے تعمیر کیئے گئے ہیں۔ ان میں بہاولپور بلاک، پٹیالہ بلاک، فرید کوٹ بلاک اور کپورتھلہ بلاک (اب مقبول احمد بلاک) شامل ہیں۔ یہ بلاکس نواب آف بہاول پور، فرید کوٹ، پٹیالہ اور کپور تھلہ کے نوابوں کی کثیر مالی امداد سے تعمیر ہوئے تھے۔
پٹیالہ بلاک ان میں سب سے حسین ہے جس کی لمبی راہداریاں، کشادہ ہال، پرانا زینہ، یادگاری تختیاں اور بڑی کھڑکیاں انسان کو ماضی میں لے جاتی ہیں۔ یہاں زمزمہ توپ کا چھوٹا سا ماڈل اور ایک عجائب گھر بھی موجود ہے۔ ادارے کے عجائب گھرمیں ابتداء سے لے کے اب تک طلباء (زیادہ تر پرانے جو اب ہندوستان میں ہیں) کے استعمال میں رہنے والی کئی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ یہ تاریخی بلاک 1860 کا بنا ہوا ہے۔

کپور تھلہ یا مقبول احمد بلاک یہاں کا سب سے زیادہ مشہور حصہ ہے جو اس دور میں (1909) ادارے کے پرنسپل، کرنل ڈاکٹر ڈیوڈ والٹر سدرلینڈ کی زیرِنگرانی تعمیر ہوا تھا جن میں ان کا اپنا ڈونیشن بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر سدرلینڈ، آخری سکھ شہزادی بمبا کے شوہر تھے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی اور دلیپ سنگھ کی بیٹی تھیں۔ وہ خود بھی ایک ڈاکٹر تھیں۔ یہ وہی بلاک ہے جس کے سامنے ادارے کے تمام گروپ فوٹوز بنائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ بلاک کی پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کر دی گئی ہے جو بہت سے کیمکولینز کے مطابق ان کی یادوں کا قتل ہے۔

اس حوالے سے ایک طالبہ حمد نواز اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتی ہیں ؛

”یہ بہت اہم تھی، ڈٰپارٹمنٹ نہیں بلکہ ہماری فارما وال۔ ہم سب اس کے کونے کونے میں روئے ہیں۔ ہم سب اپنے لیکچرز کے بعد جھنڈ میں اس کی طرف دوڑ پڑتے تھے۔ ٹھنڈی ہوائیں، ہلکے دن۔ ہم نے اسے جیا ہے، اس پر جیا ہے۔ پس منظر میں اِس دیوار کے ساتھ ایک اچھی تصویر کے بغیر کوئی حقیقی کیمکولین کبھی بھی فارغ التحصیل نہیں ہوا ہو گا۔ یہ ہمارا تاریخی نشان تھا۔ یہ وہ پہلی چیز تھی جو کسی نئے آنے والے کو دیکھنے کو ملتی تھی اور آخری چیز جسے وہ بھولنا چاہے گا۔”

گھنٹہ گھر ٹاور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ؛

جی سی یو، جامعہ پنجاب کے بعد لاہور کا سب سے مشہور ادارہ ہے جو 1864 میں انگریز سرکار کی طرف سے بطور گورنمنٹ کالج لاہور قائم کیا گیا تھا۔ شروع میں یہ ادارہ ڈوگرہ وزیراعظم، راجہ دھیان سنگھ کی حویلی میں قائم کیا گیا تھا جس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔ کیمبرج، آکسفورڈ اور ڈبلن یونیورسٹی کے اساتذہ یہاں پڑھایا کرتے تھے۔ 1871 میں انارکلی کے ایک بڑے بنگلے اور پھر ڈاکٹر رحیم خان (پروفیسر کنگ ایڈورڈ میڈٰکل کالج) کی کوٹھی سے ہوتا ہوا یہ کالج 1876 میں اپنی موجودہ جگہ، کچہری روڈ پر آ گیا۔ اس کا ایک کیمپس کالا شاہ کاکو میں بھی ہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلیب ویلہیلم لیٹنر تھے جنہوں نے جامعہ پنجاب کی بھی بنیاد رکھی سو یہ کالج لگ بھگ ایک سو پندرہ سال تک پنجاب یونیورسٹی سے منسلک رہا۔ 1997 میں اسے الگ ڈگری کے حصول کا پروانہ ملا اور 2002 میں یہ یونیورسٹی بن گیا۔ کالج کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے نام میں کالج کا لفظ برقرار رکھا گیا۔

یوں تو اس ادارے کی ایک ایک چیز بہت منفرد ہے لیکن وہ خاص چیز جو اس عمارت کو منفرد بناتی ہے اس کا گھنٹہ گھر ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی اصل پہچان ہی اس کا گھنٹہ گھر ٹاور ہے جس کے سامنے مشہور اوول گراؤنڈ ہے۔ 176 فیٹ بلند اس ٹاور کو عمارت سمیت ڈبلیو پرڈون نے ڈیزائن اور کنہیا لال کی زیر نگرانی تعمیر کیا گیا تھا جس میں نوآبادیاتی دور کے طرزِ تعمیر کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ چار منزلہ اس ٹاور کی بنیادی دو منزلیں چوکور جبکہ اوپری حصہ ہشت پہلو اور پھر تکونی گنبد پر مشتمل ہے جس کے ہر جانب محرابی کھڑکیاں ہیں۔

وسیع برآمدے، اونچی چھتیں، خوبصورت دالان، محرابی کھڑکیاں و دروازے اور ایک گھنٹہ گھر، اس ادارے میں پڑھنے کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بندہ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔

ٹائم کیپسول، ایف سی کالج یونیورسٹی ؛

آپ لوگوں نے ٹائم ٹریول کا نام تو سنا ہو گا۔۔۔۔۔ لیکن فارمن کرسچیئن کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے ادارے میں ٹائم کیپسول بنایا ہے جو ایک منفرد چیز ہے۔ ایک سو اکاون برس پرانا یہ تاریخی ادارہ 1864 میں ڈاکٹر چارلس ڈبلیو فارمن نے قائم کیا تھا جس کا پرانا نام ”لاہور مشن کالج” تھا۔ 1894 میں اس کا نام بدل کے چارلس فارمن کے نام پہ رکھ دیا گیا۔ سابق طلباء اور فیکلٹی کے ذریعہ 6 مارچ 2015 کو دفن کیا گیا یہ ٹائم کیپسول، ٹھیک پچاس سال بعد 2065 میں کھولا جائے گا جب اس کالج کو دو سو سال پورے ہو چکے ہوں گے ۔

اکیڈمک انیشی ایٹو کے سینئر مینیجر سحر جان نے کہا، “یہ خیال ایف سی کالج کو اس طرح سے امر کرنا تھا جس طرح سے ہم اسے جانتے ہیں۔”
شیشے کے ایک کیپسول میں مختلف اشیاء جیسے جامعہ کی حالیہ اشاعتیں، مگ، ایک گارڈ کی ٹوپی، کیمپس کی تصاویر اور سابق طلباء کے نوٹس کو سیل کرکے ایک گڑھے میں دبا دیا گیا ہے۔ اس کے اوپر سنگ مرمر کی ایک یادگاری تختی اور ڈائل بنایا گیا ہے۔

اس موقع پر جامعہ کے پرانے طلباء بھی موجود تھے جن میں چوہدری احمد سعید، ڈاکٹر طیب اور تجمل حسین جعفری شامل ہیں ۔
ٹائم کیپسول اب سے 50 سال بعد (06/03/2065) کھولا جائے گا تاکہ فارمینیٹس کی آنے والی نسلوں کو ایف سی کالج کی تاریخ کی ایک جھلک مل سکے۔
یہ واقعی ایک منفرد چیز ہے۔

ڈیوڈ اور دا کِس، نیشنل کالج آف آرٹس ؛

نیشنل کالج آف آرٹس عرف این سی اے فنونِ لطیفہ کے حوالے سے لاہور اور پنجاب کا منفرد اور بہترین ادارہ ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم اورجنوبی ایشیا کا دوسرا قدیم آرٹ کالج ہے جس کی بنیاد 1876 میں بطور ”میو سکول آف انڈسٹریل آرٹس” رکھی گئی تھی۔ تاج برطانیہ کے بنائے گئے اس ادارے کا نام قتل ہونے والے وائسرائے ہند، لارڈ میو کے نام پر رکھا گیا تھا۔

جان لاک ووڈ کپلنگ (روڈیارڈ کپلنگ کے والد) ادارے کے پہلے پرنسپل بنے جنہیں لاہور میوزیم کا پہلا کیوریٹر بھی مقرر کیا گیا جو اسی سال ملحقہ عمارت میں کھولا گیا۔ 1958 میں، اسکول کا نام بدل کر نیشنل کالج آف آرٹس رکھ دیا گیا۔

این سی اے کے کپلنگ بلاک کا سنگ بنیاد پرنس البرٹ وکٹر نے 1880 میں رکھا جو مغلیہ طرز تعمیر سے متاثر تھا۔ یہ خان بہادر سر گنگا رام کی زیرِ نگرانی تعمیر ہوا تھا۔
مرکزی دروازے کے سامنے واقع فوارے کو سردار بہادر بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کیا تھا ۔ کپلنگ نے اپنے دستکاری اور مجسمہ سازی کے ہُنر کا استعمال ایک نسبتاً سادہ لیکن خوبصورت ڈھانچہ بنانے کے لیے کیا۔ دیواروں کی اینٹوں کی خوبصورت چنائی، چھت پر سرخ ریتلے پتھر کے بیرونی کارنیس پر ختم ہوتی ہے جو مؤرخ محمد لطیف کے مطابق دہلی سے حاصل کیا گیا تھا۔

ادارے کا ایک ایک کیمپس راولپنڈی اور گلگت میں بھی ہے۔
این سی اے میں ایسا کیا ہے جو دوسرے اداروں میں نہیں۔۔۔؟
بطور فنونِ لطیفہ کے ادارے یہاں بہت کچھ منفرد ہے لیکن ایک چیز جو مجھے کسی اور ادارے میں نہیں ملی (اور نا مل سکتی ہے) وہ ہے یہاں کے سکلپچرز یعنی مجسمے۔مال روڈ پر عجائب گھر کے ساتھ واقع اس ادارے کا کیمپس خود بھی کسی میوزیم سے کم نہیں ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی آپ کو مختلف مُجسمے، تصاویر، ماڈلز اور سکلپچرز نظر آئیں گے جو منفرد اور جدید آرٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہاں شروع میں ایک گوتم بُدھا کا مجسمہ ملتا ہے جو گندھارا سکلپچر کی ایک نقل ہے جسے یہاں کے ایک طالب علم نے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ادارے کے مرکزی چوک میں ڈیوڈ کا مجسمہ بھی نصب ہے جسے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک استاد جمیل بلوچ صاحب نے بنایا تھا۔ ڈیوڈ، دراصل مشہور اطالوی پینٹر اور مجسمہ ساز
مائیکل اینجلو کا ایک کلاسیک شاہکار ہے جس کی نقل این سی میں موجود ہے۔
جمیل بلوچ صاحب کا ہی ایک اور مجسمہ ”دا کِس” نام سے ہےجو فوارے والے چوک میں نصب ہے۔
ایک مجسہ یہاں ہاتھ باندھے یونانی شخص کا اور ایک خاتون سائرہ کا ہے جو کتابوں پر بیٹھی ہیں۔ بیشتر کام یہاں کے طلباء کا ہے جسے ادارے نے اون کرتے ہوئے عمارت کے اندر سجایا ہے۔
این سی اے میں جا کر واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی اور ملک کے کالج میں آ گئے ہوں۔
ایک دلچسپ بات یہ کہ مال روڈ پر موجود قدیم اور تاریخی ٹولنٹن مارکیٹ کی بلڈنگ بھی اب اس ادارے کا حصہ ہے۔

جاری ہے۔۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں