لاہور کے تعلیمی اداروں میں بکھری دلچسپ تاریخ

دوسرا حصہ

حویلی فتح سنگھ، جامعہ پنجاب ؛
اکتوبر 1882 میں قائم ہونے والی جامعہ پنجاب، لاہور کی سب سے بڑی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو اب ایک سو تینتالیس سال کی ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی کی سینیٹ کا پہلا اجلاس 1882 کو شملہ میں ہوا جس میں یونیورسٹی کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس کا ایک بنیادی کردار کنگز کالج لندن کے پروفیسر گوٹ لیئیب ویلہیلم لیئیٹنر تھے (جو جامعہ کے پہلے رجسٹرار بھی رہے)۔
لاہور کے علاوہ گوجرانوالہ، جہلم اور خانسپور میں بھی اس جامعہ کے کیمپس موجود ہیں۔
لاہور شہر میں ہی جامعہ پنجاب کے مختلف کیمپسز ہیں جو شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ جامعہ اتنی وسیع ہے کہ اس کو دیکھنے کے لیئے کئی دن درکار ہیں اور اس ادارے میں ایک نہیں دسیوں ایسی خاص چیزیں ہیں جو اسے بقیہ اداروں سے منفرد بناتی ہیں لیکن یہاں میں صرف ایک کا ذخکر کروں گا اور وہ ہے ”شاہ دی کھوئی” کا تاریخی گاؤں اور اس کی حویلی فتح سنگھ۔
گاؤں، وہ بھی ایک یونیورسٹی میں۔۔۔؟ جی ہاں۔

پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کی حدود میں واقع شاہ دی کھوئہ نامی گاؤں صدیوں پرانا ہے۔ 17 ویں صدی میں جب اسلامی سکالر و صوفی حضرت شیخ ابوالمعالی رضی اللہ عنہ، نے شیر گڑھ سے لاہور ہجرت کی تو عبادت کے لیے ایک پرسکون ماحول کی تلاش میں اس خوبصورت مقام کا انتخاب کیا جہاں آج یہ گاؤں موجود ہے۔ یہ جگہ ان کے مراقبے کے لیئے پسندیدہ جگہ بن گئی۔
اس علاقے کا نام بھی یہاں موجود ان کے کنویں کی وجہ سے شاہ دی کھوئی رکھا گیا یعنی شاہ کا کنواں۔
لیکن اس گاؤں کے اندر ایک اور تاریخی جگہ بھی ہے، سردار فتح سنگھ کی حویلی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں درباریوں اور وفادار فوجی افسروں کو زمینیں اور جائیدادیں دینے کا رواج تھا۔ سردار فتح سنگھ والا کے پردادا دھنا سنگھ بھی رنجیت سنگھ کی فوج میں بطور کمانڈر خدمات سرانجام دیتے رہے تھے جس کے صِلے میں انہیں قیمتی زمین سے نوازا گیا تھا۔ جو پھر فتح سنگھ کے باپ سے ہوتے ہوئے ان کی میراث بن گئی۔
فتح سنگھ خود بھی خالصہ دربار اور برطانوی نو آبادیاتی دور میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی وراثت میں نہ صرف یہ حویلی بلکہ گیارہ دیہات اور انگریزوں کے دور میں وسیع و عریض اراضی بھی شامل تھی۔ آج کل یہ ایک متنازعہ جائیداد ہے سو اندر جانے کے لیئے اجازت درکار ہے۔

حویلی کی تعمیراتی خصوصیات کی بات کریں تو اس کے مرکزی دروازے کی محراب آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اندر ایک صحن اور اس کے گرد کمرے موجود تھے جو اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے البتہ ایک کوارٹر میں پرانی لکڑی کی بالکونی دیکھی جا سکتی ہے۔
اداروں اور جامعہ کو چاہیئے کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیئے اقدامات کرے ورنہ عنقریب یہ محرابی دروازہ بھی منظر سے غائب ہو جائے گا۔

گھوڑا اسپتال ؛ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینیمل سائنسز؛
لاہور میں جانوروں سے متعلق تعلیم کا سب سے پہلا اور پرانا سرکاری ادارہ یہ جامعہ ہے جسے عرفِ عام میں یُوواس کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1882 میں بطور لاہور ویٹرنری سکول اور پھر کالج، انگریزسرکار کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ نا صرف برصغیر بلکہ ایشیاء میں جانوروں کے لیئے اپنی طرز کا پہلا ادارہ تھا۔ جانوروں کی صحت اور ریسرچ سے متعلق اس جامعہ کے سب کیمپس نارووال، پتوکی، جھنگ، لیہ اور بہاول پور میں بھی موجود ہیں۔

ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی اس ادارے کی مرکزی عمارت آج بھی تاریخی شان و شوکت کی علامت سمجھی جاتی ہے جس کے گواہ یہاں کے محرابی دالان، گزرگاہیں اور لکڑی کے زینے ہیں۔ یوں تو یہ ساری عمارت ہی تاریخی ہے لیکن یہاں موجود گھوڑوں کی علاج گاہ اسے خاص بناتی ہے۔ جانوروں کا ادارہ ہے تو ان کی موجودگی لازم ہوگی۔ لیکن باقی اداروں کے برعکس یہاں کتے، بلیوں، خرگوشوں، مرغیوں سمیت گھوڑوں کی آمد زیادہ دیکھنے میں آتی ہے اور یہ ایک اچھاتا منظر ہے۔ اس لیئے مقامی بھی اسے گھوڑا اسپتال کہتے ہیں۔

مذہبی ٹرائیکا، ایچی سن کالج ؛

لاہور کے کسی کالج میں مندر ہے تو کسی میں سکھوں کی سمادھیاں لیکن ایک ادارہ ایسا بھی ہے کہ جس میں مندر، مسجد اور گردوارہ تینوں موجود ہیں، یہ ایک سو انتالیس برس پرانا ایچی سن کالج ہے جو جنوری 1886 میں اشرافیہ کے لیئے تعمیر کیا گیا تھا۔ کالج کا نام اس دور کے گورنر پنجاب سر چارلس ایچی سن کے نام پر رکھا گیا جبکہ
سنگِ بنیاد وائسرائے ہند، فریڈرک ہملٹن بلیک وُوڈ نے رکھا تھا۔ اس ادارے کی عمارت کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ نے بنایا تھا اور جبکہ تعمیر سر گنگا رام نے کروائی جو اس دور کے معروف معمار تھے۔
چونکہ یہاں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بیشتر طلبہ یہیں رہتے تھے سو ادارے کے اندر 1900 میں ریاست بہاول پور کے نواب محمد بہاول خان عباسی پنجم نے اپنی طالب علمی کے دوران ایک خوبصورت مسجد تعمیر کروائی جس کی سرخ و سفید عمارت اور تین سفید گنبد دور سے ہی آنکھوں کو تراوٹ بخشتے ہیں۔ پھر 1906 میں اسی مسجد کی طرز پہ انہوں نے نور محل احاطے میں بھی ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔
ہندو اور سکھ طلباء کے لیئے بھی مذہبی تعلیم لازم تھی سو ان کے لیئے کیمپس میں ایک گوردوارہ و مندر بھی تعمیر کیا گیا تھا ۔ مندر کو بعد میں پرنسپل کے دفتر کے لیئے دوبارہ ڈیزائن کیا گیا جس کے سفید تکونی گنبد اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ گردواے کی عمارت بھی کافی خوبصورت ہے جس کے اوپر موجود کچھ علامات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کبھی گوردوارہ ہوا کرتا تھا۔
تقسیم کے بعد 1948 میں قائد اعظم کو اس ادارے کا پیٹرن ان چیف بنا دیا گیا تھا۔ ادارے کی 125 ویں سالگرہ پر پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

تین سمادھیاں، اسلامیہ کالج سول لائنز ؛

آریہ سماج تنظیم کی طرف سے جون 1886 کو دیانند اینگلو ویدک سکول کے طور پہ قائم کیا گیا یہ ادارہ اس کے بانی اور مشہور ہندو رہنما دیانند سرسوتی کے نام پر کالج بنا دیا گیا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ ادارہ اسی نام سے انبالہ منتقل ہو گیا جبکہ یہاں رہ جانے والے ادارے کا نام بدل کے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز رکھ دیا گیا جو لاہور کی شیخ عبدالقادر جیلانی روڈ پر واقع ہے۔
انجمن حمایت اسلام نے 1886 میں اس ادارے کو بطور سکول قائم کیا جو مڈل و سکینڈری سکول سے ہوتا ہوا 1892 میں کالج بنا دیا گیا۔ 1914 میں ادارے کی پہلی عمارت واقع ریلوے روڈ مکمل ہوئی جبکہ ایم اے اور بی اے کی کلاسز کو تقسیم کے بعد ڈی اے وی کالج (جسے اسلامیہ کالج سول لائنز کا نام دیا گیا تھا) کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اسلامیہ کالج کا نام آتے ہی تحریک پاکستان یاد آ جاتی ہے کہ اس تحریک کو ادارے کے طالب علموں نے اپنے لہو سے سینچا ہے۔
اس کالج کے اندر ایک چبوترے پر تین تاریخی سمادھیاں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک سمادھی راج کور عرف ”داتر کور” سے منسوب کی جاتی ہے جو نکئی مثل کے سردار رن سنگھ کی بیٹی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی تھیں۔ راج کور چونکہ رنجیت سنگھ کی والدہ کا نام بھی تھا سو مہاراجہ نے انہیں پیار سے ”نکائن کور” کا نام دیا جو مائی نکائن کے نام سے مشہور ہوا ۔
سوہن لال سوری ”عمدۃ التواریخ” میں لکھتے ہیں کہ مہاراجہ اور مہارانی دونوں شکار کے سفر سے شیخوپورہ واپس آئے اور بیمار ہوگئے۔ مہارانی مر گئی لیکن رنجیت سنگھ ٹھیک ہو گیا۔ رنجیت سنگھ اپنی بیوی کے لیے بہترین چاہتا تھا، اس لیے شاہی باغ لاہور کا انتخاب کیا گیا اور مائی نکین کی راکھ یہاں دفنا دی گئی۔
ان میں سے ایک سمادی راج کور المعروف نکان کورس سے منسوب کی جاتی ہے راجکور پتوکی کے نقائی سردار رن سنگھ کی بیٹی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی اور کھڑک سنگھ کی والدہ تھی رنجیت سنگھ سے اس کی شادی ڈیش میں ہوئی ترنجیت سنگھ نے پیار سے انہیں نکاائن کار کا نام دیا یعنی مائی
دوسری سمادھی ”چندر کور” سے منسوب کی جاتی ہے جو رنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، راجہ کھڑک سنگھ کی بیوی اور نو نہال سنگھ کی والدہ تھیں۔ اپنے بیٹے کے تخت نشیں ہونے کے بعد انہیں راج ماتا کا عہدہ ملا اور چاند کور نے ”ملکہ مقدس“ کے لقب سے تخت لاہور سنبھالا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ آنجہانی مہاراجا نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور کے بطن سے ہونے والے بچے کی نگران کے طور پر سربراہی کے فرائض سر انجام دے گی۔ اس دورمیں سلطنت کے وزیراعظم دھیان سنگھ ڈوگرہ اور شیر سنگھ نے مل کر مہارانی و سندھیانوالہ سرداروں کے خلاف جنگ لڑی جو شدید خونریزی کے بعد ایک معاہدے پر ختم ہوئی۔ چندر کور کو حکومت سے بے دخل کر کے حویلی نونہال سنگھ بھیج دیا گیا۔ عمدۃ التواریخ میں سوہن لال سوری لکھتے ہیں کہ انہیں ان کے بہنوئی شیر سنگھ اور وزیر اعظم دھیان سنگھ کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔
یہاں تیسری سمادھ چندر کور کی لاڈلی بہو ”صاحب کور” سے منسوب کی جاتی ہے جو نونہال سنگھ کی بیوی تھیں۔ صاحب کور نے ایک مردہ لڑکے جواہر سنگھ کو جنم دیا جس کے بعد حکومت پر اس خاندان کی دعوے داری ختم ہو گئی۔ سوہن لال سوری کے مطابق نونہال سنگھ کی بیواؤں کو شیر سنگھ نے خفیہ طور پہ ایسی ادویات دیں جس سے ان کا اسقاطِ حمل ہو گیا اور تخت کا کوئی وارث نا بچا۔
ساس بہوؤں کی یہ سمادھیاں آج بھی چپ چاپ سکول کے ایک کونے میں کھڑی تاریخ کے قتل و غارت کی گواہی دے رہی ہیں۔

سِسٹر سٹونز؛ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ؛

پاکستان کی سب سے پرانی اور پنجاب کی سب سے بڑی سرکاری انجینیئرنگ یونیورسٹی کا قیام 1921 کو عمل میں لایا گیا جسے انگریز گورنر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن نے بطور مغلپورہ ٹیکنیکل کالج کے قائم کیا تھا۔ 1923 میں اس کا الحاق جامعہ پنجاب سے کیا گیا جبکہ 1961 میں اس کا نام بدل کے ”مغربی پاکستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی” رکھا گیا۔ موجودہ نام 1971 میں رکھا گیا۔
اس جامعہ میں فی الوقت چھ فیکلٹیز ہیں جن کے تحت 23 ڈیپارٹمنٹس کام کر رہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق یہ جامعہ ملک کی چند بہترین انجینئرنگ یونیورسٹوں میں سے ایک ہے۔

یہاں کے سو سال سے بھی پرانے مرکزی بلاک کے سامنے دو سنگِ مرمر کی تختیاں لگی ہیں جو ایک ہی تاریخ اور مہینے میں لگائی گئی ہیں لیکن دونوں کے بیچ سو سال کا فرق ہے۔ ایک افتتاحی تختی ہے جو اس وقت کے گورنر پنجاب سر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کے ہاتھوں لگائی گئی تھی جس پہ درج ذیل الفاظ درج ہیں ؛

THIS STONE WAS LAID BY HIS EXCELLENCY
SIR EDWARD DOUGLAS MACLAGAN
GOVERNOR OF THE PUNJAB
ON THE 9TH DAY OF NOVEMBER 1921.
جبکہ 9 نومبر 2021 کو ٹھیک سو سال بعد لگائے جانے والے نئے کتبے پر یہی الفاظ لکھے ہیں لیکن گورنر پنجاب کی جگہ چوہدری محمد سرور کا نم جگمگا رہا ہے۔ یوں عمارت کے دونوں طرف سو سال پر محیط تاریخ کی گواہ دو تختیاں نصب ہیں۔

اس کے علاوہ اس یونیورسٹی کا پنگا شیک بھی بہت مشہور ہے جو دور دور سے لوگ پینے آتے ہیں۔ اب واقعی یہ چیز خاص ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آپ خود پی کے کریں تو بہتر ہو گا۔

پرانا مندر، گورنمنٹ ایم اے او کالج ؛

گورنمنٹ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج جسے عرف عام میں ایم اے او کالج بھی کہا جاتا ہے، 1933 میں قائم کیا گیا تھا جسے قیامِ پاکستان کے بعد سناتن دھرم کالج لاہور کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس ادارے کی بنیاد انجمن اسلامیہ نے امرتسر میں رکھی تھی جسے علی گڑھ کے طرز پر مسلم طلباء کے لیئے قائم کیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت ادارے کا زیادہ تر عملہ اور طلباء لاہور چلے گئے جہاں سابق سناتن دھرم کالج (قائم شدہ 1916) کے احاطے میں ایم اے او کالج امرتسر کو منتقل کیا گیا تھا۔ اسی طرح لاہور کا سناتن دھرم کالج انبالہ کینٹ منتقل ہو گیا تھا۔
کالج تو منتقل ہو گیا لیکن اس کی نشانیاں باقی رہ گئیں۔
اس کالج میں آج بھی ہندوؤں کا ایک پرانا مندر دیکھنے کو ملتا ہے جو کالج کے بوٹینیکل گارڈن کے اندر ہے۔
یہ مندر کب اور کس نے تعمیر کیا اس بارے کوئی دستاویز دستیاب نہیں البتہ اس کی تعمیر سے یہ بہت زیادہ قدیم نہیں لگتا۔ مندر کی تعمیر مٹی کی جلی ہوئی اینٹوں سے کی گئی ہے جو عام طور پر مغل فن تعمیر میں “لکھوری” کے نام سے مشہور ہے۔
مندر ایک منزل پر مشتمل ہے جس کا مرکزی کمرہ چونے سے بنے پھولوں کے گلدستے سے بھرا ہوا ہے۔ ہر مندر کی طرح محرابی دروازے یہاں بھی موجود ہیں۔
اگرچہ ہندوؤں کے تعلیمی ادارے میں کسی مندر کا ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن یہ بات لائقِ تحسین ہے کہ اسے ملک کا ورثہ سمجھتے ہوئے برقرار رکھا گیا۔ مسجد کی ضرورت پڑی تو وہ بھی اس کے پہلو میں بنائی گئی۔
اس مندر کے ستونوں پہ خوبصورت نقش و نگار بنے ہیں جبکہ بقیہ عمارت کی حالت نازک ہے۔ آج یہ مندر اگرچہ ویران پڑا ہے لیکن ذرا سی توجہ سے بحال کیا جا سکتا ہے۔

یہ تو تھے لاہور کے چیدہ چیدہ ادارے لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ہیں جن میں بہت کچھ خاص ہے۔ آپ کے ادارے میں ایسا کیا ہے جو اسے سب سے منفرد بناتا ہے۔۔۔؟

Author

اپنا تبصرہ لکھیں