اسرائیل نے غزہ شہر پر بڑے پیمانے کی زمینی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے رات بھر شدید فضائی حملے کیے، جس کے بعد اسرائیلی فوجی دستے اب شہر کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق، غزہ پر قبضے کا یہ اسرائیل کا دیرینہ منصوبہ تھا، جس پر اب باقاعدہ عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، اور وہ ایک ہی ساحلی سڑک کے راستے نقل مکانی کر رہے ہیں، اس طرح وہ بھی اپنے لاکھوں ہم وطنوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے جو پہلے ہی علاقے کو چھوڑ چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے آخری بڑے گڑھ کے خلاف طاقتور آپریشن قرار دیا، لیکن اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ناقابلِ قبول کہا۔ اسی دوران اقوامِ متحدہ کے ایک انکوائری کمیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔
غزہ شہر کے مختلف علاقوں سے فلسطینیوں کی بڑی بڑی قطاریں گدھا گاڑیوں، رکشوں، سامان سے لدے ٹرکوں اور پیدل جنوب کی طرف روانہ ہوتی دیکھی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے مطابق، 3 لاکھ 50 ہزار افراد پہلے ہی غزہ شہر چھوڑ چکے ہیں، تاہم بقیہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ نقل مکانی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جبکہ جنوبی اور وسطی غزہ بھی محفوظ نہیں کیونکہ اسرائیلی فضائی حملے وہاں بھی جاری ہیں۔
کچھ افراد نے بتایا کہ انہوں نے جنوب کی جانب جانے کی کوشش کی لیکن خیمے لگانے کے لیے جگہ نہ ملنے پر واپس غزہ شہر آ گئے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 59 افراد ہلاک اور کم از کم 386 زخمی ہوئے ہیں جبکہ قحط اور غذائی قلت کے نتیجے میں مزید تین افراد، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے، جاں بحق ہو چکے ہیں