اسرائ-یلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل خود فیصلہ کرے گا کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد سکیورٹی کے لیے کون سی غیر ملکی فورسز کو قبول کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تحت ہونے والی بین الاقوامی فورس کے حوالے سے کیا جائے گا۔
نیتن یاہو نے اتوار کے روز کابینہ اجلاس میں کہا کہ “ہم اپنی سکیورٹی کے خود ذمے دار ہیں، اور ہم نے واضح کر دیا ہے کہ بین الاقوامی فورس کے معاملے میں اسرائی-ل طے کرے گا کہ کون سی فورس ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں، اور ہم اسی پالیسی پر عمل کرتے رہیں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکا بھی اس پالیسی سے متفق ہے۔
صدر ٹرمپ انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کو غز- ہ نہیں بھیجے گی، لیکن انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان جیسے ممالک سے بین الاقوامی فورس میں شمولیت کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
اسرائی-ل کا کہنا ہے کہ وہ غز-ہ کی تمام سرحدوں پر کنٹرول برقرار رکھے گا، جہاں دو سال سے محاصرہ جاری ہے۔ جنگ کے بعد اب بھی اسرائی-لی فوج علاقے میں موجود ہے تاکہ جنگ بندی پر عمل یقینی بنایا جا سکے۔
نیتن یاہو نے واضح کیا کہ وہ غز-ہ میں ترک فورسز کی موجودگی کے سخت مخالف ہیں۔ ترکی اور اسرائ-یل کے تعلقات غز-ہ جنگ کے دوران شدید کشیدہ ہو گئے تھے، جب ترک صدر طیب اردوان نے اسرائی-لی کارروائیوں کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کے دورے کے دوران کہا کہ بین الاقوامی فورس صرف ان ممالک پر مشتمل ہو سکتی ہے جنہیں اسرائ-یل قبول کرے۔ انہوں نے کہا کہ غز-ہ کی آئندہ حکومت میں فلسط-ینی حمائیتی تنظیم کا کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
نیتن یاہو نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ اسرائیل ایک خودمختار ملک ہے اور “امریکی حکومت میرے فیصلے نہیں کنٹرول کرتی۔” تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا اور اسرائ-ل کے درمیان مضبوط شراکت داری موجود ہے