قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دھماکوں کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ قیادت کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا ہے۔
بی بی سی اور روئٹرز کو ایک اسرائیلی افسر نے تصدیق کی ہے کہ یہ حملہ قطر میں موجود حماس کی قیادت پر کیا گیا، جبکہ حماس کے ایک رہنما نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مذاکراتی وفد کو دوحہ میں ایک اجلاس کے دوران ہدف بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق منگل کے روز دارالحکومت میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور علاقے کٹارا میں دھوئیں کے بادل بلند ہوتے دکھائی دیے۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا ہے، تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ کارروائی کس ملک یا کس جگہ پر کی گئی۔
دوسری جانب قطر کی حکومت نے دوحہ میں اس فضائی حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے اپنی خودمختاری پر براہِ راست حملہ اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر ماجد الانصاری کے مطابق جس مکان کو نشانہ بنایا گیا وہاں حماس کے سیاسی بیورو کے کئی اہم ارکان مقیم تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام قطر میں بسنے والے عام شہریوں کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے بھی واقعے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ترجمان اسماعیل بغائی کے مطابق یہ حملہ نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ فلسطینی مذاکرات کاروں کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے، جو خطے اور پوری عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
واضح رہے کہ یہ حملہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے دو روز قبل حماس کو “آخری وارننگ” دی تھی کہ وہ فوری طور پر یرغمالیوں کو رہا کرے اور ہتھیار ڈال دے، بصورت دیگر غزہ کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی حماس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اس صورتحال کے بعد قطر میں امریکی سفارتخانے نے اپنے عملے کو خصوصی حفاظتی ہدایات جاری کی ہیں اور امریکی شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ جہاں موجود ہیں وہیں پناہ لیں اور غیر ضروری نقل و حرکت سے اجتناب کریں۔