گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ، اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

اسرائیلی افواج نے غزہ کے محاصرے کو توڑنے کی کوشش کرنے والی بین الاقوامی امدادی فلوٹیلا “گلوبل صمود” پر حملہ کر کے متعدد کشتیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ واقعہ بدھ کی شب پیش آیا جب فلوٹیلا مشرقی بحیرۂ روم میں غزہ کے ساحل سے تقریباً 70 ناٹیکل میل (130 کلومیٹر) دور تھی۔

فلوٹیلا پر کیا ہوا؟

فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق، اسرائیلی بحریہ نے کم از کم 19 کشتیوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روکا، ان پر چڑھائی کی اور رابطے کے نظام کو جام کر دیا تاکہ کشتیوں سے لائیو نشریات اور ہنگامی پیغامات کی ترسیل کو روکا جا سکے۔اس فلوٹیلا میں شامل کل 40 سے زائد کشتیوں پر تقریباً 500 افراد سوار تھے، جن کا تعلق 37 مختلف ممالک سے تھا۔ ان میں اسپین، اٹلی، ترکی، ملائیشیا اور امریکہ سمیت کئی ملکوں کے شہری شامل تھے۔ فلوٹیلا کی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں دلچسپی پیدا ہوئی، اور جیسے ہی اسرائیلی کارروائی کی خبر آئی، روم، استنبول، اور بیونس آئرس سمیت کئی شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

اسرائیل کا مؤقف کیا ہے؟

اسرائیل نے فلوٹیلا کو “قانونی ناکہ بندی” توڑنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی قسم کی امداد صرف “متفقہ راستوں” کے ذریعے ہی غزہ پہنچائی جا سکتی ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں ایک خاتون فوجی افسر کو فلوٹیلا سے رابطہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے جس میں وہ کشتیوں کو آگے بڑھنے سے خبردار کر رہی ہیں۔اسرائیلی حکام کے مطابق، فلوٹیلا کے شرکاء کو یومِ کپور کے اختتام کے بعد ملک بدر کر دیا جائے گا۔ یومِ کپور کے باعث اسرائیل میں عدالتی اور قانونی نظام مکمل طور پر بند ہے، جس کے باعث زیرِ حراست افراد ایک “قانونی خلا” میں پھنس گئے ہیں۔

نمایاں شخصیات اور الزامات:

اس فلوٹیلا میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں گریٹا کو اسرائیلی فوجیوں کے درمیان ایک کشتی پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ اور صحت مند ہیں۔
اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ فلوٹیلا کے بعض منتظمین کا تعلق حماس سے ہے، تاہم منتظمین نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے اس بارے میں تاحال کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

2010 سے اب تک کئی بار بین الاقوامی فلوٹیلاز نے غزہ کی ناکہ بندی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ 2010 میں ترکی کی کشتی “ماوی مرمرہ” پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں 10 کارکن مارے گئے تھے۔2011 تا 2018 چھوٹے پیمانے کی فلوٹیلاز کو یا تو غزہ پہنچنے سے پہلے روکا گیا یا ان کے شرکاء کو حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا گیا۔جون 2025 میں بھی ایک فلوٹیلا، “مدلین”، سسلی سے روانہ ہوئی تھی لیکن اسرائیلی بحریہ نے اسے بین الاقوامی پانیوں میں روک کر قبضے میں لے لیا۔

موجودہ فلوٹیلا کی تفصیل:

گلوبل صمود فلوٹیلا نے اگست 2025 کے آخر میں اسپین اور اٹلی سے روانگی کا آغاز کیا تھا۔ راستے میں یونان اور تیونس میں قیام کے بعد اس نے غزہ کا رخ کیا۔ اس مشن کا مقصد ایک علامتی اور پرامن بحری راستے سے غزہ کو امداد پہنچانا اور اسرائیلی محاصرے کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔

اس مشن میں شامل افراد میں 24 امریکی شہری، کئی سابق فوجی، انسانی حقوق کے کارکن، قانون ساز، اور صحافی بھی شامل ہیں۔فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق، تقریباً 25 کشتیاں اب بھی اسرائیلی بحریہ سے بچتے ہوئے غزہ کے ساحل کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو اس وقت تقریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پرعزم ہیں اور ہر قیمت پر اپنا مشن مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے اس عمل پر پوری دنیا سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔

فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اس کارروائی کو جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلوٹیلا ایک پرامن اور سول سوسائٹی کی قیادت میں شروع کی گئی مہم ہے جس کا مقصد اسرائیل کی غیر انسانی ناکہ بندی توڑنا اور غزہ میں بھوک و نسل کشی کو روکنا ہے۔ وزارت نے مزید کہا کہ اسرائیل ان کشتیوں پر موجود افراد کی سلامتی کا مکمل ذمہ دارہوگا۔

برطانیہ نے اسے انسانی المیہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ اسرائیل پر لازم ہے کہ امداد اقوام متحدہ اور این جی اوز کے ذریعے فوری طور پر غزہ پہنچنےکی اجازت دے۔ آسٹریلیا نے بھی اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے گرفتار کارکنوں کی حفاظت اور انسانی سلوک کا مطالبہ کیا ہے۔

اسپین نے اسرائیلی نمائندے کو طلب کر کے باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا، جبکہ ترکیہ نے اس کارروائی کو دہشت گردانہ عمل قرار دیتے ہوئے30 ترک شہریوں کی گرفتاری پر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ برازیل نے بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ پُرامن کارکنوں کو نشانہ بنانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی اس اقدام کو بزدلانہ حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کارکنوں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ محصور فلسطینی عوام کے لیے خوراک اور دوائیں لے جا رہے تھے۔ انہوں نے گرفتار کارکنوں کی فوری رہائی اور ان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہوئے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں