ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران آذربائیجان کے شہر خانکیندی میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ کا تفصیلی تذکرہ کیا۔
اپنی تقریر میں ایرانی صدر نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ، اس نے جنگ کے دوران نہ صرف عسکری اہداف، بلکہ یونیورسٹیوں کے پروفیسروں، عام شہریوں اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں چلنے والی پرامن جوہری تنصیبات سمیت عوامی انفراسٹرکچر کو بھی نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایران کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اس اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر نے تاجکستان کے صدر، امام علی رحمان، ترک صدر، رجب طیب ایردوان اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بھی ایک اہم موضوع رہا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کو قبول کرنے کے ایران کے فیصلے کو سراہا اور جنگ کے دوران ایران کے ساتھ پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی کوششوں کو اجاگر کیا۔
صدر پزشکیان نے پاکستان کی جانب سے ایران کی ‘مضبوط سفارتی حمایت’ پر شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ، خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان نے ایک اہم کردار ادا کیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ، ایران اسرائیل جنگ اور بھارت و پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ، بعض طاقتیں جغرافیائی سیاسی مقاصد کے تحت خطے کو غیر مستحکم کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ایسے حالات میں علاقائی تعاون مزید ناگزیر ہو گیا ہے۔
شہباز شریف نے اسرائیل کے حالیہ حملے کو غیر قانونی، غیر ضروری اور بلا جواز قرار دیتے ہوئے اسے ایک خطرناک رجحان کی علامت کہا جس کے خلاف خطے کے ممالک کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔