14 اگست پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن اور سنہرا باب ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے طویل جدوجہد، قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ یہ آزادی کسی تحفے یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ لاکھوں شہداء کے خون، بزرگوں کی دعاؤں اور بے شمار قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ اس دن کو ہم ہر سال خوشی، جوش اور ولولے سے مناتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دن صرف پرچم لہرانے، آتش بازی کرنے اور ترانے گانے تک محدود ہے؟ یا اس کا مقصد اس سے کہیں زیادہ گہرا اور سنجیدہ ہے؟
یومِ آزادی دراصل ایک عہدِ نو کی یاد دہانی ہے۔ یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے اپنے وطن کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ کیا ہم نے ان خوابوں کو پورا کیا جن کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی جانیں قربان کیں؟ کیا ہم نے اپنے معاشرے کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کیا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ضروری ہے کہ ہم 14 اگست کو صرف جشن کا دن نہ سمجھیں بلکہ ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ اپنی اصلاح اور ملک کی ترقی کے لیے عملی اقدامات کرنے کا فیصلہ کریں۔
ترقی یافتہ ممالک کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہاں قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ وہاں طاقتور بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ رویہ عام ہے کہ قانون کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر جب ذاتی مفاد یا طاقت کا سوال ہو۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے لے کر ٹیکس چوری، رشوت اور سفارش تک، یہ سب قانون شکنی کی مثالیں ہیں۔یومِ آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں قانون کو مقدم رکھیں گے۔ ایک عام شہری کا قانون پر عمل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک بڑے افسر یا سیاستدان کا۔ اگر ہر فرد اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کرے تو معاشرے میں نظم و ضبط خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک ڈرائیور ٹریفک سگنل توڑنے کے بجائے چند لمحے رک جائے یا ایک دکاندار گاہک کو صحیح تول دے تو یہ چھوٹے عمل بھی ملک کی اخلاقی تعمیر میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی۔ یہاں کے علماء کرام کا کردار اس لیے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ وہ معاشرتی اور اخلاقی رہنمائی کے سب سے بڑے ذریعہ ہیں۔ منبر و محراب سے دی جانے والی نصیحتیں لاکھوں لوگوں کی سوچ اور عمل کو متاثر کرتی ہیں۔علماء کو چاہیے کہ وہ صرف مذہبی مسائل پر ہی نہیں بلکہ معاشرتی برائیوں، اتحاد، رواداری اور قانون پسندی پر بھی زور دیں۔ وہ عوام کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اسلامی تعلیمات ہمیں ایمانداری، عدل، صبر اور قربانی کا درس دیتی ہیں۔ فرقہ واریت اور تعصب کو ختم کر کے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں مدد کریں جہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں کسی بھی ملک کی سمت اور پالیسی اس کے سیاستدان طے کرتے ہیں۔ اگر سیاستدان ایماندار، محبِ وطن اور وژنری ہوں تو ملک کی ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں لیکن اگر وہ ذاتی مفادات، کرپشن اور اقتدار کی جنگ میں الجھے رہیں تو قوم پستی کی طرف چلی جاتی ہے۔
یومِ آزادی کے موقع پر سیاستدانوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ اپنی ذات یا جماعت سے بڑھ کر ملک کے مفاد کو مقدم رکھیں گے۔ انتخابی وعدوں کو محض نعروں تک محدود رکھنے کے بجائے ان پر عمل درآمد کریں گے۔ کرپشن کے خاتمے، عوامی فلاح، تعلیم اور صحت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب لیڈر قربانی دیتے ہیں تو قوم بھی قربانیاں دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ایک استاد کی محنت اور کردار ایک نسل کی قسمت بدل سکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے صرف علم دینے کی جگہ نہیں بلکہ کردار سازی کے مراکز بھی ہیں۔ بدقسمتی سے آج تعلیمی نظام میں رٹہ کلچر، معیارِ تعلیم میں کمی اور اخلاقی تربیت کی کمی جیسے مسائل ہیں۔
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو محض نصابی کتابوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ انہیں ایمانداری، حب الوطنی، محنت اور خدمتِ خلق کا درس دیں۔ تاریخ کے وہ اسباق پڑھائیں جن سے طلبہ میں ملک و ملت کے لیے قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر ہر استاد یہ عزم کر لے کہ وہ اپنے شاگردوں کو ایک بہتر انسان بنا کر معاشرے میں بھیجے گا تو آنے والے چند سالوں میں پاکستان کا چہرہ بدل سکتا ہے۔اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ملک کی حالت صرف حکومت یا حکمرانوں کی وجہ سے خراب ہے۔ یہ سوچ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے کیونکہ معاشرہ دراصل افراد سے بنتا ہے۔ اگر ہر فرد اپنے روزمرہ کے معمولات میں ایمانداری، دیانت، صفائی، اور دوسروں کے حقوق کا احترام اپنائے تو مجموعی طور پر معاشرہ درست ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر، ہم گلی میں کچرا نہ پھینکیں، پانی اور بجلی ضائع نہ کریں، قطار میں اپنی باری کا انتظار کریں، جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچیں، تو یہ معمولی باتیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں لیکن معاشرتی اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔یومِ آزادی ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں ماضی کے مجاہدین کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر شہری کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ یہ عہد صرف تقریروں، جلسوں اور بیانات میں نہیں بلکہ عملی زندگی میں نظر آنا چاہیے۔
ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی کہ “کچھ نہیں ہو سکتا” یا “یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہوگا”۔ اس کی جگہ ہمیں یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی جگہ بہتر ہو جائے تو یہ ملک ضرور بدلے گا۔جب 1947 میں پاکستان وجود میں آیا تو ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی، لیکن جذبے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ آج ہمارے پاس وسائل بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی، لیکن کمی جذبے اور اخلاص کی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو کبھی ہم سے پیچھے تھے، آج ہم سے آگے نکل چکے ہیں کیونکہ وہاں کے عوام اور حکومت دونوں نے ایمانداری اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ترقی محض نعروں یا جلسوں سے نہیں بلکہ عملی کام سے آتی ہے۔ اگر ایک کسان کھیت میں اچھی فصل اگانے کا عزم کرے، ایک انجینئر دیانتداری سے منصوبہ مکمل کرے، ایک ڈاکٹر مریض کا علاج ایمانداری سے کرے، ایک استاد طلبہ کو بہتر انسان بنانے میں محنت کرے، اور ایک سیاستدان ملک کے مفاد کو مقدم رکھے، تو یہ سب مل کر ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔
14 اگست محض ایک تاریخی دن نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔یہ پیغام کہ ہم سب کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، اپنی ذمہ داریاں پہچاننی ہوں گی، اور ملک کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ہم اس دن یہ عہد کر لیں کہ ہم اپنی اپنی فیلڈ میں بہتری لائیں گے، قانون شکنی سے بچیں گے، اور ایمانداری سے اپنا کردار ادا کریں گے تو کوئی شک نہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان ایک ایسی ریاست بن سکتا ہے جس پر دنیا فخر کرے۔یقین جانیں! تبدیلی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے پہلا قدم ہمیں خود اٹھانا ہوگا۔