پاکستان کی معاشی سمت کے تعین کے اہم ترین مرحلے پر آئی ایم ایف کی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (GCD) رپورٹ سامنے آئی ہے، جسے وفاقی حکومت نے نہ صرف اپنی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ قرار دیا ہے بلکہ اسے پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کے لیے ایک ’’چارج شیٹ‘‘ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ حکومت کے مطابق اس رپورٹ نے جہاں کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، وہیں متعدد شعبوں میں پیش رفت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر یہ دستاویز پاکستان کے گورننس ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور کرپشن کے دیرینہ مسائل کے سدباب کے لیے فوری، مربوط اور شفاف اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس اسی تناظر میں اہمیت کے حامل رہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو رپورٹ پر بریفنگ کے لیے طلب کیا، تاہم وہ مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ بعد ازاں وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے آئی ایم ایف کی پندرہ بنیادی سفارشات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ان سفارشات کا تعلق گورننس، ٹیکس کے نظام، کرپشن کے تدارک، ریگولیٹری فریم ورک، اور قانون کی بالادستی جیسے حساس اور بنیادی شعبوں سے ہے جنہیں کسی بھی ریاستی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
وزیر خزانہ نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ حکومت نے خود آئی ایم ایف سے اس ’’ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ‘‘ کی درخواست کی تھی تاکہ بدعنوانی، کمزور نگرانی اور ناقص پالیسی میکانزم جیسے بنیادی مسائل کی علمی، تحقیقی اور تکنیکی بنیادوں پر تشخیص کی جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے کی گئی متعدد اصلاحات کی آئی ایم ایف نے رپورٹ میں واضح طور پر تحسین بھی کی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام آباد عالمی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کی بنیاد پر ایک پائیدار معاشی ڈھانچہ تشکیل دینے کا خواہشمند ہے۔
رپورٹ کے بعد حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 31 دسمبر 2025 تک 6 ماہ، 18 ماہ اور 36 ماہ کے مرحلہ وار شیڈول کے ساتھ ایک جامع ایکشن پلان تیار کیا جائے گا۔ یہ پلان نہ صرف فوری اصلاحی اقدامات کا احاطہ کرے گا بلکہ درمیانی اور طویل المدتی اسٹریٹجک اصلاحات کا بھی خاکہ پیش کرے گا۔ حکومتی پالیسی سازوں کے مطابق بدعنوانی کے سدباب کے لیے اس طرح کا مرحلہ وار پلان اب ناگزیر ہوچکا ہے، کیونکہ معاشی و سیاسی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت، احتساب اور میرٹ کو فیصلہ کن انداز میں شامل کیا جائے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس موقع پر ایک اہم اعلان یہ بھی کیا کہ سرکاری افسروں کے اثاثے اگلے سال تک مکمل طور پر آن لائن کر دیے جائیں گے۔ یہ اعلان پاکستان کے بیوروکریٹک کلچر میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اس پر سختی سے عمل درآمد ہو۔ شفافیت کا یہ قدم نہ صرف عوامی اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بنے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی گورننس ریٹنگ میں بھی بہتری کا باعث ہوگا۔ اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ ڈیجیٹل اثاثہ جات ڈیکلریشن سسٹم محض رسمی کارروائی ثابت ہوگا یا حقیقی احتساب کا دروازہ کھولے گا۔
اس پورے منظرنامے میں ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ محض معاشی اصلاحات تک محدود نہیں بلکہ سیاسی اور قانونی ڈھانچے کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے، ریگولیٹری اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنانے، اور سرکاری خریداری کے نظام کو بین الاقوامی معیار کے مطابق شفاف بنانے کی سفارشات دراصل ریاستی مشینری کے خاکے کو ازسرِنو ترتیب دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں مختلف حکومتوں نے اصلاحات کے دعوے تو ضرور کیے، مگر عملی اور پائیدار نتائج شاذ ہی دیکھنے میں آئے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ اسی تسلسل کا نقاد بھی ہے اور رہنما بھی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کرپشن سے متعلق شکایات کا تعلق صرف مالی بے ضابطگیوں سے نہیں بلکہ طرزِ حکمرانی کے پورے ڈھانچے سے ہے۔ نچلی سطح کے سرکاری اداروں میں رشوت اور بدعنوانی سے لے کر اعلیٰ سطح کے پالیسی فیصلوں میں مخصوص مفادات کے اثرات تک، یہ مسائل مجموعی طور پر ریاستی اعتبار کو کمزور کرتے ہیں۔ عالمی ادارے کا یہ کہنا کہ پاکستان کی گورننس کے متعدد شعبوں کو بنیادی سطح سے ازسرِنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے، بظاہر سخت مگر حقیقت پسندانہ تشخیص ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت رپورٹ کو ایک ’’تنبیہ‘‘ کے طور پر بھی دیکھ رہی ہے اور ایک ’’روڈ میپ‘‘ کے طور پر بھی۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ یہ رپورٹ حکومت کی خواہش اور درخواست پر تیار کی گئی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ پالیسی ساز اپنی کمزوریوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان کے حل کے خواہاں بھی ہیں۔ تاہم اصل امتحان رپورٹ کے نکات کو عملی شکل دینے کا ہے۔ اگر یہ ایکشن پلان محض کاغذی حد تک محدود رہا تو نہ تو آئی ایم ایف کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی ملک میں شفافیت اور احتساب کے نئے دور کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومتی بیانیہ خاصا محتاط مگر قدرے دفاعی نظر آتا ہے۔ حکومت نے اسے چارج شیٹ بھی قرار دیا اور اپنی کارکردگی کے اعتراف کے طور پر بھی پیش کیا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات کسی بھی طرح معمولی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے اندر موجود گہرے، پیچیدہ اور دیرینہ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی سطح پر اکثر اوقات ایسے اقدامات کی راہ میں مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے، جس سے اصلاحاتی سرگرمیاں یا تو التوا کا شکار ہوجاتی ہیں یا اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے تناظر میں سامنے آنے والی اصلاحات کا تعلق صرف بین الاقوامی مطالبات سے نہیں بلکہ پاکستان کے اندرونی مسائل سے بھی ہے۔ کرپشن، ٹیکس چوری، ریگولیٹری ناکامیاں، اور کمزور عدالتی نفاذ ایسے مسائل ہیں جن کا حل ہمارے اپنے معاشی مستقبل کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ ایکشن پلان خلوصِ نیت کے ساتھ اور سیاسی استحکام کے ماحول میں نافذ کیا جائے تو نہ صرف پاکستان کی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوسکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کا تشخص بہتر ہوسکتا ہے۔
آخر میں، آئی ایم ایف کی GCD رپورٹ پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع بھی ہے اور ایک کڑا امتحان بھی۔ موقع اس لیے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی شفاف تشخیص کر دی ہے، اور امتحان اس لیے کہ اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم اس تشخیص کو ایک ’’چارج شیٹ‘‘ سمجھ کر نظرانداز کریں گے یا اسے اصلاحات کا آغاز بنائیں گے۔ پاکستان کی معیشت اور گورننس کا مستقبل اسی فیصلے سے وابستہ ہے