پیپل داد کے نام سے مشہور خضر ولی چشتی پاکپتن کے ایک چھوٹے سے گاؤں فیروزپور میں اسکول ٹیچر ہے، جو جسمانی طور پر معذور ہے، مگر حوصلے آسمان کی بلندی کو چھو رہے ہیں۔وہ سال 2013 سے شجر کاری مہم چلا رہے ہیں اور اب تک لاکھوں درخت اپنے ہاتھوں سے لگا چکے ہیں۔ اس دوران انہیں احساس ہوا کہ مقامی پودوں کی قد رو قیمت گھٹتی جا رہی ہے۔ پیپل اور برگد جیسے پودوں سے لوگ جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ کسی مقام پر خود اگ جانے والے ان پودوں کو اکھاڑ کر کچرا کنڈی میں پھینک دیا جاتا ہے۔
اس وجہ سے خضر نے عہد کیا ہے کہ وہ ایک لاکھ پیپل کے پودوں کو ریسکیو کرکے اپنی فری نرسری میں پروان چڑھائیں گےاور انہیں ایسی جگہ لگائیں گے جہاں وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکیں۔

تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ‘اب تک میں تقریبا پانچ سو پیپل کے پودے ریسکیو کرچکا ہوں ، جو مختلف مقامات بشمول میری ذاتی نرسری میں موجود ہیں،جہاں ان کی دیکھ بال کی جاتی ہے۔’
پیپل کا پودا باآسانی اپنے تئیں اگ جاتا ہے اورتقریبا 70 فیصد پرندے اس سے خوراک حاصل کرسکتے ہیں۔ خضر بتاتے ہیں کہ ‘ہریل پرندہ تو باقاعدہ اسی سے خوراک کھاتا ہے۔ اس درخت پر لگنے والے پھل پرندوں کو کافی پسند آتے ہیں۔ اس کی کمی کی وجہ سے پرندے ہجرت کر کے ہمارے درمیان سے رخصت ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، حشرات بھی اس درخت سے کافی منسلک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے ان درختوں اور پودوں کو ریسکیو کرتا ہوں۔ ‘

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جاندار مخلوق ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ پیپل کے درخت کے نتیجے میں ماحول کی آبیاری سے جہاں پرندوں اور حشرات فائدے سمیٹتے ہیں وہیں انسان بھی بہرہ مند ہوتا ہے۔ خضر کا کہنا ہے کہ’پیپل کے درخت گویا آکسیجن کی فیکٹری ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رات کو بھی آکسیجن دیتا ہے۔ دوسری طرف انسان دوست اس حد تک ہے کہ اس کی فطری عمر ہزاروں سال پر محیط ہے، اور ایک پوری تہذیب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔’
‘ ثقافتی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے آباؤ اجداد ہر کنویں کے کنارے یہ درخت لگاتے تھے کہ اس سے ٹھنڈک اور سایہ حاصل کیا جاسکے۔’
خضر کے اس کارخیر میں پانچ سو سے زائد افراد سرگرم عمل ہے ۔ وہ روزانہ کی بنیاد پرنالوں، گلیوں ، محلوں اور مختلف علاقوں کا مشاہدہ کرتےہیں اور نظر آنے والے پیپل کے پودوں کو بچاتے ہیں، جسے بعد میں محفوظ مقام پر لگا دیاجاتا ہے۔خضر کہتے ہیں کہ ‘گزشتہ دنوں میں نے پانی کی ٹینکی سے ایک پیپل کا پودہ ریسکیو کیا اور اب وہ بہتری کی جانب چل پڑا ہے۔ اسی طرح لوگ جڑی بوٹیاں اپنے گھروں کی صفائی کے دوران پھینک دیتے ہیں۔ وہاں سے بھی ہمیں اس طرح کے پودے ملے ہیں۔’

خضر کے مطابق انہوں نے سب سے زیادہ بڑا دس فٹ کا پیپل ریسکیو کیا ہے، جو اس وقت پاکستان کی اس پہلی فری نرسری میں جی رہا ہے جو سال 2017 میں انہوں نے اپنی ذاتی زمین پر لگائی جہاں سے سالانہ ایک لاکھ پودے تقسیم ہوتے ہیں۔ ہرسال ایک خاص ہدف کے تناظر میں پودے خریدے جاتے ہیں اور مختلف سیمنارز اور ورکشاپس کے ذریعے مفت بانٹتے دیے جاتے ہیں۔
خضر پیپل کے درختوں اور پودوں کو اپنا چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ‘ہر بندہ ناپید ہونے والے مقامی پودوں اور درختوں کی حفاظت کرنے کا ذمہ اٹھائے تو دنوں میں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ میں نے پیپل کے درختوں کا ذمہ اٹھایا ہے، اس تحریک کی کامیابی کےنتیجے میں کسی اور درخت کے پیچھے لگ جاؤں گا، اصل مقصد تو ماحول کو بچانا ہی ہے۔ ‘