دنیا اس وقت ایک فکری اور سیاسی دوراہے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے جس جمہوری نظام کو انسانی آزادی، ترقی اور خوشحالی کا ضامن سمجھا جاتا رہا، آج اسی نظام سے عوام کی بڑی تعداد بیزار دکھائی دیتی ہے۔ یہ بیزاری کسی ایک خطے یا ایک قوم تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے لے کر ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں تک پھیل چکی ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں، حکومتیں بدلتی ہیں، پارٹیاں اقتدار میں آتی اور جاتی ہیں، مگر عام آدمی کی زندگی میں بنیادی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ، انصاف میں تاخیر اور طاقتور طبقوں کی اجارہ داری نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا موجودہ جمہوری نظام واقعی ان کے مسائل کا حل ہے یا محض ایک ایسا ڈھانچہ ہے جس کے ذریعے مخصوص طبقے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا دنیا کسی نئے نظامِ حکمرانی کی طرف بڑھ رہی ہے، یا پھر پرانا نظام ہی کسی نئی شکل میں خود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جمہوریت سے بڑھتی ہوئی بےزاری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جدید جمہوری نظام اکثر محض ووٹ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عوام کو ہر چند سال بعد ووٹ ڈالنے کا حق تو حاصل ہوتا ہے، مگر اس کے بعد پالیسی سازی، وسائل کی تقسیم اور اہم فیصلوں میں ان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں، مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ وعدے یا تو فراموش کر دیے جاتے ہیں یا حالات کا بہانہ بنا کر مؤخر کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام، کارپوریٹ لابیز اور طاقتور میڈیا گروپس نے جمہوری عمل کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ عام آدمی کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اصل طاقت اس کے ووٹ میں نہیں بلکہ پیسے، تعلقات اور اثر و رسوخ میں ہے۔ یہی احساس محرومی جمہوریت کے خلاف ردِعمل کو جنم دے رہا ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں ابھرنے والی سیاسی تبدیلیاں بھی اس بےزاری کی عکاس ہیں۔ کئی ممالک میں ایسے مضبوط لیڈر سامنے آئے ہیں جو جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آ کر اختیارات کو اپنے ہاتھ میں مرکوز کر لیتے ہیں۔ کہیں قومی سلامتی اور استحکام کے نام پر شہری آزادیوں کو محدود کیا جا رہا ہے، تو کہیں ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی رائے پر نگرانی اور کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ روایتی جمہوریت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے، جس کے نتیجے میں عوام یا تو متبادل نظام کی تلاش میں ہیں یا پھر کسی ایسے طاقتور ہاتھ کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ ہو رہے ہیں جو فوری نتائج دینے کا دعویٰ کرے، چاہے اس کی قیمت جمہوری اقدار کی کمزوری ہی کیوں نہ ہو۔
مسلمان معاشروں، خصوصاً پاکستان جیسے ممالک میں، جمہوریت سے بےزاری کی وجوہات اور بھی گہری ہیں۔ یہاں مسئلہ صرف جمہوریت نہیں بلکہ ایک مسخ شدہ اور نامکمل جمہوری نظام ہے جس پر جاگیردارانہ سیاست، خاندانی جماعتوں، کرپشن اور ادارہ جاتی کمزوریوں کا غلبہ ہے۔ عوام ووٹ دیتے ہیں مگر انہیں بار بار وہی چہرے، وہی خاندان اور وہی پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ انصاف کا نظام سست اور پیچیدہ ہے، احتساب کا عمل کمزور اور انتخابی سیاست دولت کی محتاج بن چکی ہے۔ نتیجتاً عوام کے دل میں یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ موجودہ نظام ان کے لیے نہیں بلکہ چند مخصوص طبقات کے لیے بنایا گیا ہے۔
اسی تناظر میں اسلامی نظامِ حکمرانی کا تصور بار بار زیرِ بحث آتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے جمہوریت کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلامی نظام کوئی محض تاریخی ماڈل یا ماضی کی یادگار نہیں، بلکہ اصولوں پر مبنی ایک زندہ تصور ہے۔ اسلام میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد، جماعت یا پارلیمنٹ مطلق العنان نہیں ہو سکتی۔ قانون سازی قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر کی جاتی ہے اور عدل و انصاف کو ریاست کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ حکمران کو اقتدار نہیں بلکہ امانت دی جاتی ہے، اور وہ خود کو عوام اور اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے۔
اسلامی نظام کی ایک نمایاں خصوصیت شورائیت ہے، جو آمرانہ طرزِ حکمرانی کی نفی کرتی ہے۔ فیصلے فردِ واحد کی مرضی سے نہیں بلکہ اہلِ علم اور اہلِ رائے کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح احتساب کا تصور محض نعرہ نہیں بلکہ عملی ذمہ داری ہے، جہاں حکمران اور عام شہری قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں خلفائے راشدین کی مثالیں اس اصول کی عملی تصویر پیش کرتی ہیں، جہاں حکمران بھی عدالت میں پیش ہونے سے نہیں جھجکتے تھے۔ یہی وہ اقدار ہیں جو آج کے انسان کو جمہوریت میں مفقود نظر آتی ہیں۔
تاہم یہ سمجھ لینا بھی ایک سادہ لوحی ہو گی کہ اسلامی نظام محض ایک نعرے یا نام کی تبدیلی سے نافذ ہو سکتا ہے۔ اصل چیلنج نظام سے زیادہ افراد کا ہے۔ اگر حکمران اور معاشرہ اخلاقی طور پر کمزور ہوں تو کسی بھی نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، چاہے اس کا نام جمہوریت ہو یا اسلامی نظام۔ اسی لیے اسلام فرد کی اصلاح، کردار سازی اور اخلاقی تربیت پر غیر معمولی زور دیتا ہے۔ ایمان، دیانت، امانت اور خوفِ خدا وہ ستون ہیں جن کے بغیر کوئی بھی اسلامی نظام محض ایک خول بن کر رہ جاتا ہے۔
جدید دور میں اسلامی نظامِ حکمرانی کی عملی شکل لازماً ماضی سے مختلف ہو گی۔ خلافتِ راشدہ کی من و عن نقل تو شاید ممکن نہ ہو سکے مگر اصل مقصد اس دور کے اصولوں اور روح کو آج کے حالات کے مطابق ڈھالنا ہے۔ جدید ریاستی ادارے، آئین، پارلیمنٹ، عدلیہ اور ٹیکنالوجی سب اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ عدل، احتساب اور عوامی فلاح کو واقعی ترجیح دی جائے۔ یوں ایک ایسا نظام وجود میں آ سکتا ہے جو نہ مکمل مغربی جمہوریت ہو اور نہ روایتی آمریت، بلکہ ایک متوازن اور اخلاقی طرزِ حکمرانی ہو۔
اس پوری بحث میں عام آدمی کا کردار سب سے اہم ہے۔ تبدیلی محض نعروں، انقلاب کی باتوں یا طاقتور لیڈروں کے انتظار سے نہیں آتی۔ اصل تبدیلی انفرادی اور اجتماعی سطح پر شعور، ایمانداری اور ذمہ داری سے جنم لیتی ہے۔ جب لوگ رشوت، جھوٹ اور ناانصافی کو معمول سمجھنا چھوڑ دیں، جب وہ ووٹ کو ذاتی فائدے کے بجائے اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کریں، اور جب وہ شخصیت پرستی کے بجائے اصولوں کو ترجیح دیں، تب ہی کسی بہتر نظام کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بعض دانشوروں کا یہ کہنا کہ یہ نئے نظام کا شوشہ اچانک کہاں سے آگیا ؟ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کسی ایک نئے عالمی نظام کی طرف اچانک نہیں بڑھ رہی، مگر موجودہ جمہوری نظام اپنی ساکھ اور افادیت کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ عوام دراصل نظام کے نام سے نہیں بلکہ ناانصافی، بدعنوانی اور نااہلی سے تنگ آ چکے ہیں۔ اگر جمہوریت خود اپنی اصلاح نہ کر سکی تو اس کی جگہ مختلف متبادل سامنے آتے رہیں گے۔ اسلامی نظامِ حکمرانی اس بحث میں ایک مضبوط اخلاقی اور فکری متبادل پیش کرتا ہے، مگر اس کی کامیابی کا دار و مدار نعروں پر نہیں بلکہ کردار، عدل اور حقیقی احتساب پر ہے۔ دنیا کو شاید کسی نئے نظام سے زیادہ ایک نئے انسان کی ضرورت ہے، جو اقتدار کو حق نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھے، اور جس کے لیے حکمرانی کا اصل مقصد عوام کی خدمت اور انصاف کا قیام ہو