‘ایسے اقدامات آئینی بنیادی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہیں’، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا جبری گمشدگیوں پر شدید اظہارِ تشویش

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک میں من مانی گرفتاریوں، غیرقانونی حراست اور جبری گمشدگیوں کے مسلسل واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اس سنگین مسئلے کا فوری اور سنجیدگی سے سامنا کرنا ہوگا۔

ایچ آر سی پی کے مطابق، یونیورسٹی آف پشاور کے طلبہ حبیب وزیر اور عدنان وزیر کی مبینہ جبری گمشدگی اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح آئینی تقاضوں اور قانونی طریقہ کار کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ دونوں طلبہ 12 نومبر 2025 سے لاپتہ ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے بلائے گئے ایک گرینڈ جرگے میں شرکت کے بعد لاپتہ ہوئے۔

کمیشن نے سابق رکن قومی اسمبلی نثار پنھوار اور ان کے بیٹے محسن پنھوار کی مبینہ گمشدگی کو بھی نہایت تشویشناک قرار دیا ہے۔ بیان کے مطابق، 22 دسمبر 2025 کو کراچی میں سادہ لباس افراد نے دونوں کو حراست میں لیا، حالانکہ نثار پنھوار کی مختصر رہائی کے بعد متعلقہ حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

ایچ آر سی پی نے نشاندہی کی کہ بلوچستان میں خواتین اور کم عمر افراد کی گرفتاریوں اور حراست کے واقعات بھی اسی تشویشناک سلسلے کا حصہ ہیں۔ نومبر اور دسمبر 2025 کے دوران کم از کم چھ افراد، جن میں معذور طالبہ اور سماجی کارکن ماہ جبین بلوچ بھی شامل ہیں، کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔

کمیشن کے مطابق، ایسے اقدامات آئین میں دی گئی بنیادی ضمانتوں کی صریح خلاف ورزی ہیں اور متاثرہ خاندانوں اور برادریوں پر ناقابلِ تلافی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی نے زور دیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفافیت کو یقینی بنائے، ذمہ داران کا احتساب کرے اور تمام متاثرہ خاندانوں کو بلا شرط انصاف تک رسائی فراہم کرے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں