ذبیح اللہ بلگن
آج ایک بار پھر المناک خبر سامنے آئی کہ لیبیا سے یورپ جاتے ہوئے تارکین وطن کی ایک کشتی سمندر میں ڈوب گئی، جس میں پاکستانیوں سمیت 71 افراد سوار تھے۔ یہ واقعہ ہمیں ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ لاکھوں نوجوان بہتر زندگی کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان میں سے کئی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
تارکینِ وطن کی کشتیوں کے حادثات ایک سنگین انسانی المیہ ہیں جو برسوں سے جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق، 2024 میں بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش میں 2,200 سے زائد افراد جانبحق یا لاپتہ ہوئے۔ اسی سال، اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10,000 سے زیادہ تارکینِ وطن ہلاک ہوئے، جو روزانہ اوسطاً 30 اموات بنتی ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 58 فیصد زیادہ ہے۔
لیبیا سے یورپ جانے والے راستے خاص طور پر خطرناک ہیں۔ ستمبر 2023 میں، لیبیا کے شمال مغربی ساحل پر زوارہ سے روانہ ہونے والی ایک کشتی سمندر کی بلند لہروں کی لپیٹ میں آ کر ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں 61 افراد لاپتہ ہوئے۔
ان حادثات میں پاکستانی شہری بھی متاثر ہوئے ہیں۔ حال ہی میں، 31 جنوری 2025 کو لیبیا کے قریب ایک کشتی ڈوبنے سے 13 پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش کرنے والے تارکینِ وطن کو شدید خطرات کا سامنا ہے، اور ان حادثات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال سینکڑوں افراد سمندری لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں، مگر عالمی برادری اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی۔ اگرچہ یورپ میں غیر قانونی مہاجرین کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں، مگر جب تک ان ممالک میں بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے جہاں سے یہ نوجوان ہجرت کر رہے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔