بنگلہ دیش:عدالت نےسابق وزیراعظم حسینہ واجد پر مظاہرین کی ہلاکتوں کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی

بنگلہ دیش کی سابقبرطرف وزیراعظم، شیخ حسینہ واجد کے خلاف ایک خصوصی ٹربیونل نے جمعرات کو ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ کے الزامات کو قبول کرتے ہوئے اُن پر فردِ جرم عائد کر دی۔ یہ الزامات گزشتہ سال ایک بڑے عوامی بغاوت کے دوران سینکڑوں طلبا کے قتل سے متعلق ہیں۔

تین رکنی عدالتی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس غلام مرتضیٰ کر رہے تھے، نے حسینہ واجد، سابق وزیرداخلہ، اسدالزماں خان، اور سابق پولیس سربراہ، چوہدری عبداللہ المامون پر پانچ الزامات میں فردِ جرم عائد کی۔ حسینہ اور خان پر ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، یہ ٹرائل 5 جون کو شروع ہوا تھا، جس میں ٹربیونل نے حسینہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں حکام نے اخبارات میں اشتہارات بھی دیے، کیونکہ حسینہ گزشتہ سال 5 اگست سے بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت، جس کی قیادت نوبیل انعام یافتہ، محمد یونس کر رہے ہیں، نے بھارت کو حسینہ کی حوالگی کی باضابطہ درخواست دی ہے، تاہم بھارت کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ، اسدالزماں خان بھی بھارت میں مقیم ہیں۔

البتہ، سابق پولیس سربراہ، المامون کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے استغاثہ کی حمایت میں بعد ازاں بیان دینے کا عندیہ دیا۔

عدالت میں حسینہ اور خان کی جانب سے ریاست کی طرف سے مقرر کردہ وکیل، امیر حسین نے ان کے نام مقدمے سے خارج کرنے کی درخواست دی، تاہم ٹربیونل نے یہ درخواست مسترد کر دی۔

عدالت نے استغاثہ کو 3 اگست کو ابتدائی بیان دینے اور 4 اگست کو گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے لیے تاریخ مقرر کی ہے۔

استغاثہ نے حسینہ کے خلاف ایک آڈیو ریکارڈنگ اور دیگر دستاویزات بطور ثبوت عدالت میں پیش کیں۔ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ پہلے ہی اس مقدمے اور استغاثہ کی ٹیم پر سیاسی وابستگیوں، بالخصوص جماعتِ اسلامی سے تعلقات، کے الزامات لگا چکی ہے۔

استغاثہ کے مطابق، حسینہ نے ریاستی اداروں، اپنی جماعت عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں کو مظاہرین پر مہلک حملوں، خواتین اور بچوں پر تشدد، لاشوں کو نذرِ آتش کرنے اور زخمیوں کو طبی سہولیات سے محروم رکھنے کے احکامات دیے۔ الزامات میں حسینہ کو ‘انسانیت کے خلاف جرائم کی منصوبہ ساز، نگران اور اعلیٰ کمانڈر’ قرار دیا گیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، عبوری حکومت نے عوامی لیگ پر پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے اور متعلقہ قوانین میں ترمیم کر کے جماعت پر مقدمہ چلانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق، فروری میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ، حسینہ کی حکومت کے خلاف طلبا کی قیادت میں مظاہروں کے دوران تین ہفتوں میں تقریبا1400 افراد ہلاک ہوئے۔

چند ہفتے قبل، عدالت نے حسینہ کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس مقدمے کا آغاز ایک مبینہ آڈیو لیک سے ہوا تھا، جس میں حسینہ کو کہتے سنا گیا، کہ،میرے خلاف 227 مقدمات ہیں، تو اب میرے پاس 227 افراد کو مارنے کا لائسنس ہے۔

یہ قابلِ ذکر ہے کہ، اسی حسینہ نے 2009 میں یہ ٹربیونل قائم کیا تھا، تاکہ 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور سماعت کی جا سکے، جس میں زیادہ تر جماعتِ اسلامی کے سیاست دانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اے پی کے مطابق، بنگلہ دیش نے بھارت کی مدد سے پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی، اور شیخ مجیب الرحمان، جو حسینہ کے والد اور ملک کے پہلے رہنما تھے، اس تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں