پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر مصدق ملک نے انکشاف کیا ہے کہ، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کلائمٹ فنانسنگ کے تحت 100 سے 200 ارب ڈالرز درکار ہیں، جبکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
یہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرپرسن شیری رحمٰن کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف حکومتی اقدامات اور بجٹ میں کی جانے والی کٹوتیوں پر تفصیل سے غور کیا گیا۔
وفاقی وزیر نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی ایک ’گرین یونیورسٹی‘ کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ، 7 پاکستانی کمپنیوں کو اسپین لے جایا جائے گا، جہاں بچوں کے گرین پروجیکٹس بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو پیش کیے جائیں گے، تاکہ وہ ان منصوبوں کے لیے فنڈنگ فراہم کریں۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ، پاکستان نے عالمی سطح پر 37 فیصد کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی ہے، لیکن مالی امداد ان ممالک کو دی جا رہی ہے جو سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے اسے عالمی سطح پر ایک سنگین منافقت قرار دیا اور کہا کہ، وہ اس ناانصافی کے خلاف دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ، پاکستان کو فی الحال کلائمٹ فنانسنگ کے تحت صرف 30 کروڑ ڈالرز موصول ہوئے ہیں، جو درکار وسائل کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، حکومت کی پالیسی ہے کہ، نئے منصوبوں کے آغاز سے قبل جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے۔
اجلاس کے دوران شیری رحمٰن نے بجٹ میں موسمیاتی شعبے کی کٹوتیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان کلائمٹ انڈیکس کے مطابق، دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، اور ایسے حالات میں بجٹ میں کمی باعثِ تشویش ہے۔
اجلاس میں گرین پاکستان پروگرام کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ، 2016 میں شروع ہونے والے اس پروگرام کے تحت اب تک 2 ارب 23 کروڑ پودے لگائے جا چکے ہیں، جبکہ منصوبے کا ہدف 3 ارب 29 کروڑ 60 لاکھ پودے تھا۔ تاہم منصوبے کا صرف 39 فیصد بجٹ جاری کیا گیا، جس کی وجہ سے مکمل ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔