گریٹر اسرائیل کا خواب اور ہمارے اعلامیے

یہودی خود کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہونے، خود پر تورات جیسی اعلیٰ کتاب کے نازل ہونے، صحرائی زندگی کے وسیع تر انعامات ملنے، من و سلویٰ جیسی نعمتیں حاصل کرنے، پانی کی منصفانہ تقسیم کے اصول سے مستفید ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احکامات کی پوری پاسداری نہیں کی۔ انہوں نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہیں تکلیفیں دیں، بلکہ قتل تک کر ڈالا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے بعد کوئی پیغمبر ایسا نہ ہو گا، جس نے یہودیوں کی سرکشی پر ان کے لیے بد دعا نہ کی ہو۔ یہودیوں کی مذہبی تاریخ جبر و تشدد، قتل و غارت گری اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے۔ ان کی انتہا پسندی اور سرکشی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ باہم ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے تھے۔

یہودیوں کے نسلی تفاخر کی انتہا یہ ہے کہ ان کے خیال میں ان کی روحیں تمام جانداروں کی روحوں سے ممتاز ہیں۔ اگر کوئی غیر، اسرائیلی کو مارتا ہے، تو وہ خدا کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ سزائے موت کا مستحق ہے۔ ان کا یہ بھی نظریہ ہے کہ اگر یہودی نہ ہوتے تو زمین میں برکت نہ ہوتی، اور یہودیوں اور باقی لوگوں میں فرق ایسا ہی ہے جیسا انسان اور حیوان کا، اور دنیا کی تمام اقوام جانوروں کے باڑوں کی طرح ہیں۔ یہودیوں کو یہ بھی زعم ہے کہ وہ خدا کے منتخب کردہ ہیں جبکہ دنیا کی باقی قومیں ہماری (یعنی ان کی) خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ مذہبی برتری کا یہ احساس گریٹر اسرائیل کے لیے لکھی گئی خفیہ دستاویز یہودی پروٹوکولز میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ پروٹوکولز میں لکھا ہے: جب ہم (یہودی) اپنی سلطنت میں داخل ہوں گے تو اپنے مذہب کے علاوہ کسی مذہب کو برداشت نہیں کریں گے، خدا کی محبوب قوم کی حیثیت سے ہمارا مقدر خدائے واحد کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے اور اسی کے واسطے سے ہماری تقدیر دنیا کی دوسری اقوام کی تقدیر سے وابستہ ہوئی ہے۔

پروٹوکولز سامنے آنے کے بعد سے یہودی مسلسل گریٹر اسرائیل کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈا اختیار کر رہے ہیں۔ جنگیں، بحران، انقلابات، ضروریاتِ زندگی کی گرانی، مسلسل غیر مستحکم و متزلزل معیشت اور بد امنی وہ ہتھکنڈے ہیں جن کو استعمال کر کے یہودی فلسطین اور ارد گرد کے علاقوں میں گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے مصروف عمل ہیں اور جس کے خدوخال اب ظاہر ہونا شروع ہو رہے ہیں۔ غزہ پر بہیمانہ حملہ اور اب بھوک اور قحط جو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا سلسلہ جاری ہے، شام کو تاخت و تاراج کرنا، حماس کی قیادت کو ختم کرنا، لبنان کو کمزور کرنا، مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو ابراہام اکارڈ کی گرہ میں باندھنا اور اردن و مصر کو اپنا تابع بنانا، ایران کو بے جا پابندیوں کا شکار بنوانا گریٹر اسرائیل کے قیام کی جانب بڑھتے ہوئے قدم کہے جا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں جاری جنگوں ِ، بحرانوں، بد امنی، انقلابات اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بھی یہودی پروٹوکولز کا شاخسانہ قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا۔

1066ء تک انگلستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ ان سب پر اپنے اپنے حاکم یا وار لارڈز تھے۔ یہ سبھی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ اور داخلی طور پر خانہ جنگی کا شکار رہا کرتی تھیں۔ ایڈورڈ انگلستان کے تخت پر بیٹھا لیکن اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی تو اس نے ڈیوک آف نارمنڈی ولیم دی باسٹرڈ کو 1051ء میں اپنا جانشین بنا دیا۔ اس زمانہ میں شمالی فرانس میں یہودی بے حد خوشحال اور صاحب ثروت تھے چنانچہ ولیم نے جب یورپ کے علاقے فتح کیے تو اس خیال سے یہودیوں کو اپنے ساتھ انگلستان لے آیا کہ ان کے سرمایہ کی بدولت انگلستان میں بھی ترقی ہو گی اور خوشحالی پھیلے گی لیکن کہا جاتا ہے کہ انگلستان آتے ہی ان یہودیوں کو سخت مذہبی تعصب اور عداوت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں یہودیوں سے انتہا کی نفرت کرتے تھے۔ نفرت کا یہ سلسلہ صدیوں جاری رہا تاوقتیکہ 1896 میں تھیوڈور ہرزل نے ایک کتابچہ چھاپا جس کا نام یہودی ریاست کے خدوخال تھا۔ اب جس گریٹر اسرائیل کی بات کی جاتی ہے اس کا خاکہ اسی کتابچے میں کھینچا گیا تھا، جسے پروٹوکولز کا نام دیا جاتا ہے۔

اب آ جاتے ہیں او آئی سی کانفرنس کے اعلامیہ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے اس بیان کی جانب کہ جس کے بھی ہاتھ میں موبائل فون ہے اس کے ہاتھ میں اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے۔ کانفرنس کا گول مول اعلامیہ آپ نے بھی پڑھا ہو گا اور نیتن یاہو کی دوٹوک بات بھی سنی ہو گی جو غلط بھی نہیں ہے۔ اسرائیل موبائل ٹیکنالوجی، چپ ڈیزائننگ اور سائبر سکیورٹی میں غیرمعمولی ترقی کر چکا ہے۔ اگرچہ اسرائیل خود کوئی سمارٹ فون برانڈ نہیں بناتا، مگر دنیا کی مشہورکمپنیوں کے R&D (Research and Development) سینٹرز اسرائیل میں ہیں، جیسے Core i-Series، Xeon۔ Intel کا Fab 28 پلانٹ اسرائیل میں چپس تیار کرتا ہے۔ Apple نے ایک اسرائیلی کمپنی PrimeSense کو خریدا، جس کی ٹیکنالوجی iPhone کے Face ID اور TrueDepth Camera میں استعمال ہوئی۔Apple کے Herzliya R&D Center میں 900 سے زائد اسرائیلی انجینئرز کام کر رہے ہیں۔ Qualcomm کا اسرائیل میں سینٹر Snapdragon Modem اور 4G/5G ٹیکنالوجی کے ریسرچ پر کام کرتا ہے۔ کئی modem algorithms کی ریسرچ اسرائیلی انجینئرز نے کی ہے۔

اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہودیوں نے تو گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے پوری تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ہم مسلمانوں نے اس ناجائز ریاست کے قیام کا راستہ روکنے کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ محض اعلامیوں سے تو کام نہیں بنے گا اور یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اگرموجودہ اسرائیل نہیں سنبھالا جا رہا تو گریٹر اسرائیل کو سنبھالنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں