دو سال سے غزہ میں ایک ایسی آزمائش جاری ہے جس نے نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے ، بلکہ پوری امت مسلمہ کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ زمین دہک رہی ہے، مائیں اپنے بچوں کے لواحقین کے غم میں چیخ رہی ہیں، اور بے گناہ یتیموں کی آہیں آسمان کو چیر رہی ہیں۔ 28 ستمبر 2025 تک ایک اندازے کے مطابق 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 68 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ محض اعداد نہیں ، بلکہ ان خون آلود اعداد میں تباہ شدہ گھر، اجڑے ہوئے خواب اور ختم ہوتی نسلوں کی دردناک کہانی چھپی ہوئی ہے۔
ایسے میں دنیا کے سامنے ایک نیا منصوبہ آیا ہے جسے “امن منصوبہ” یا 21 نکاتی منصوبہ کہا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امن کا منصوبہ نہیں، بلکہ غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنے، سیاسی خودمختاری چھیننے اور امریکی و اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینے کی سازش ہے۔ کیونکہ سوال سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی امن لا سکتے ہیں جنہوں نے گزشتہ دو سال میں جنگ بندی کی قرارداد کو ایک بار نہیں، دو بار نہیں ، بلکہ چھ بار ویٹو کیا؟ کیا وہی امریکہ جس نے اسرائیل کو مسلسل ہتھیار فراہم کیے، آج امن کا علمبردار بن سکتا ہے؟ کیا انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ہے ، اُس طاقت سے جس کے ہاتھ لاکھوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں؟ افسوس کہ کچھ مسلم حکمران انہی قوتوں کو ” امن کا خواہاں” کہہ کر اپنے اجتماعی شعور کو موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں۔
اس نئے منصوبے کے تحت حماس کو اقتدار سے باہر نکالنے، غزہ کو غیر مسلح کرنے، انتظامی اختیارات ٹیکنوکریٹس کے حوالے کرنے اور تمام معاملات کی نگرانی امریکی و اسرائیلی پسندیدہ “پیس بورڈ” کے ذریعے کرنے کی بات کی گئی ہے۔ سب کچھ اس دعوے کے تحت کہ غزہ کو ترقی دی جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آزادی کے بغیر ترقی ممکن ہے؟ کیا ایک مقبوضہ، بے اختیار اور غیر مسلح قوم حقیقی خوشحالی دیکھ سکتی ہے؟ یقیناً نہیں! یہ منصوبہ درحقیقت غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنے کی سازش ہے، جو صرف ٹینکوں اور بموں سے نہیں ، بلکہ اب قلم و کاغذ سے کیا جا رہا ہے اور اسے “امن” کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کا بنیادی مقصد حماس اور مزاحمتی گروہوں کو ختم کرنا ہے، کیونکہ اصل خطرہ وہ مزاحمت ہے جو فلسطینیوں نے اپنی زمین کی حفاظت کے لیے کھڑی کی ہے۔ اگر یہ مزاحمت نہ ہوتی تو اب تک “غزہ” نامی کوئی شہر ہی دنیا کے نقشے پر شاید نہ ہوتا، لیکن چونکہ مزاحمت نے اسرائیلی خوابوں کو چکناچور کیا، اس لیے اسے غیر مسلح کرنے کے لیے ایک نیا سیاسی جال بُنا جا رہا ہے۔ یہ سوال بچہ بچہ کررہا ہے کہ کیا وہی امریکہ جو اسرائیل کو مسلسل ہتھیار فراہم کرتا ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی حمایت کرتا ہے، اب “پیس بورڈ” کے ذریعے امن لا سکتا ہے؟ اس منصوبے کے تحت غزہ کا انتظام ایک غیر منتخب ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے ہاتھوں دیا جائے گا، جس کی نگرانی ایسے چہروں کے ذریعے کی جائے گی جنہوں نے عراق، افغانستان اور فلسطین کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ یہ کوئی امن نہیں ، بلکہ نیا نوآبادیاتی قبضہ ہے جسے “تعمیر نو” کے خوبصورت لیبل سے چھپایا جا رہا ہے۔
اس منصوبے میں سب سے بڑی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمران اس منصوبے کو قبول کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کچھ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر مزاحمتی تنظیمیں انکار کریں تو مسلم فوجیں غزہ میں داخل ہو کر انہیں غیر مسلح کریں۔ یہ سوچنا بھی دردناک ہے کہ کیا امت کی فوجیں اب اپنے فلسطینی بھائیوں کے خلاف استعمال ہوں گی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ محض جرم نہیں ، بلکہ تاریخ کی سب سے بڑی خیانت ہوگی، جوکہ فلسطینیوں کی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو کچلنے کی سازش ہے۔ اسے خوبصورت نعروں میں لپیٹ کر “ترقی” اور “امن” کا رنگ دیا جا رہا ہے، مگر اصل میں یہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی گلا دبا رہی ہے۔ کوئی بھی ایسا حل جو مزاحمت کو ختم کر کے لایا جائے، دیرپا نہیں ہو سکتا، کیونکہ ناانصافی کے ماحول میں مزاحمت فطری ردعمل ہے۔
آج امت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ظالموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرے گی۔ یہ جو سودا ہو رہا ہے، جس کے ذریعے غزہ کو غیر مسلح، غیر سیاسی اور بے اختیار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ صرف فلسطینیوں کی شکست نہیں، بلکہ پوری امت کی شکست ہے۔ ہماری بے حسی، ہماری تقسیم، اور ہمارے حکمرانوں کی غلامی کی نشانی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی جاگنے کی کوشش نہ کی، تو یاد رکھیں کہ غزہ کا یہ سودا تاریخ میں ہماری ضمیر کی موت کے طور پر لکھا جائے گا۔یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں، اپنی آواز بلند کریں اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ورنہ ہماری خاموشی اور بے حسی تاریخ کی آنکھوں میں شرمندگی کا باعث بنے گی۔