لاہور کے منظر نامے کو نیا رخ دینے والے ‘میاواکی جنگلات’ کیسے لگائے جاتے ہیں؟

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ایک سرکردہ شخص جواد قادر نے بتایا ہے کہ لاہور میں میاواکی طریقہ کار کے تحت لگائے گئے ابتدائی جنگلات اب کامیابی کے مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان جنگلات میں جیلانی پارک، شادمان اور گلشن اقبال پارک میں لگائے گئے جنگلات بھی شامل ہیں۔

تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے جواد قادر نے کہا کہ’ انہوں نے اتفاق ٹاؤن میں 52 مختلف اقسام کے پودوں پر مشتمل ایک میاواکی جنگل پر کام کیا تھا اور محض چار سال کے عرصے میں یہ پودے اب 35 فٹ کی بلندی تک پہنچ چکے ہیں۔

اکیرا میاواکی جاپان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نباتیات تھے جنہوںستر کی دہائی نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے شہروں کے بیچ و بیچ جنگل اگانے کا یہ طریقہ ایجاد کیا تھا ۔

جواد قادر کہتے ہیں کہ’ لاہور میں پہلا میاواکی جنگل تقریباً سات سال قبل ایک نجی سوسائٹی ڈریم گارڈنز میں لگایا گیا تھا اور وہاں اب درختوں کی اونچائی 35 فٹ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

چار سال کے عرصے میں یہ پودے اب 35 فٹ کی بلندی تک پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان میں خالی اراضی یا ان علاقوں میں جہاں درخت کاٹے جا رہے ہیں، وہاں مزید درخت لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ جواد قادر سمجھتے ہیں کہ’ شہروں میں زمین کی بڑھتی ہوئی قیمت اور قلت کے باعث میاواکی طرز کاشتکاری کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔’

اس طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ‘قدرتی جنگلات میں مختلف تہوں میں مختلف پودے ہوتے ہیں، جن میں اونچے سایہ دار درخت، نیم سایہ دار درخت، جھاڑیاں اور زمینی سطح پر اگنے والے پودے شامل ہیں۔ میاواکی میں ان تمام اقسام کے پودوں کو ایک گنجان علاقے میں لگایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی چھتریوں اور جڑوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور یہ تیزی سے نشوونما پاتے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کی بدولت پودے اپنی قسم سے قطع نظر پانچ سال کے بجائے ایک سال میں بڑھتے ہیں۔جب یہ نظام مقامی زمین پر متعارف کرایا جاتا ہے تو نیم، ارجن اور چناب جیسے مقامی پودوں کی اقسام کو شامل کر کے اس ٹیکنالوجی کو مقامی بنایا جاتا ہے۔
‘اس طریقہ کار میں تین مراحل شامل ہیں: پہلا، زمین کی سخت اور ٹھوس پرت کو چار فٹ تک توڑنا؛ دوسرا، بھاری نامیاتی مادے کا استعمال؛ اور تیسرا، تہوں میں پودے لگانا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک سال میں سبز چھتری 14-15 فٹ تک تیار ہو جاتی ہے اور ہمیں اسی سبز چھتری کی ضرورت ہے۔’

کہ ایک سال میں سبز چھتری 14-15 فٹ تک تیار ہو جاتی ہے

ایک دلچسپ پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاواکی جنگلات کے درختوں میں تیز رفتاری سے نشوونما کی وجہ سے (photosynthesis) کی شرح بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کو تیزی سے جذب اور خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح، ان پودوں میں (transpiration) کا عمل ہوتا ہے، جس میں پودے کے فضائی حصوں سے پانی کی حرکت شامل ہے۔

جوا دقادر کے مطابق ‘میاواکی طریقہ کار حیاتیاتی تنوع میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک ہی علاقے میں مختلف اقسام کے پرندے پائے جا سکتے ہیں۔ ان جنگلات میں اگنے والے مقامی پودے مختلف قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے اگرچہ انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہوتے، لیکن پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم نے ان علاقوں میں پرندوں کی مختلف اقسام کا مشاہدہ کیا ہے۔’

ان جنگلات کو ماحول کی خوبصورتی اور بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے ماڈلز کو نافذ کرنے کا اختیار حکام کے پاس ہے۔ جواد قادر کا کہنا ہے کہ ‘حکومت کو اس اقدام کی مکمل حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے شہروں میں آلودگی، گرمی کی لہروں اور دھند میں کمی واقع ہو گی۔’

‘میاواکی طریقہ کار حیاتیاتی تنوع میں معاون ثابت ہو سکتا ہے

تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے ماہر زراعت حافظ محمد وصی نے نشاندہی کی کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ جنگلات تباہ ہو رہے ہیں اور شہر پھیل رہے ہیں، جس طرح شہر کے مخصوص حصوں میں پیٹرول پمپ لوگوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں، اسی طرح یہ میاواکی جنگلات شہری آبادی کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس اقدام کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے شہروں میں آلودگی، گرمی کی لہروں اور دھند میں کمی واقع ہو گی۔

اس تکنیک کی ابتداء کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ جاپان کے ایک ایوارڈ یافتہ ماہر نباتات اکیرا میاواکی نے 1970 کی دہائی میں میاواکی طرز کاشتکاری متعارف کرائی تھی۔ ماہر نباتات نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ نظام درختوں کی نشوونما کا وقت 200 سال سے کم کر کے 20 سال کر دے گا، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔’

Author

اپنا تبصرہ لکھیں