کیا یہ ہماری فکری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ نہیں کہ ایک جوہری طاقت، جو عالم اسلام کی شوکتِ ایمانی کا عظیم قلعہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، آج اپنے سب سے اہم اثاثے، اپنی آبادی کو ہی اپنی معاشی مشکلات کا بنیادی سبب قرار دے رہی ہے؟ جب ریاستیں سیاسی خلفشار اور انتظامی بدحالی کی دلدل میں دھنستی ہیں، تو حکمران طبقہ اکثر اپنی نالائقیوں کا بوجھ آسمانی تقدیر اور عوام کی پیدائش پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کا شدید اقتصادی و معاشی بحران دراصل آبادی کی کثرت کا نتیجہ ہے، حالانکہ ٹھوس معاشی شواہد اس مفروضے کو مسترد کرتے ہیں۔ اصل اور دیرینہ چیلنج ناقص حکمرانی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ، اور بیرونی قرض دہندگان سے درآمد شدہ ایجنڈوں پر عمل درآمد ہے۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بیانیہ بھی فروغ دیا جا رہا ہے کہ عوامی صحت، ماحولیاتی بگاڑ اور معاشی مشکلات کا تعلق آبادی کی کثرت سے جڑا ہوا ہے ۔ اس طرح آبادی کو ترقی میں رکاوٹ کے طور پر پیش کر کے خاندانی منصوبہ بندی کے قوانین کے جبری نفاذ کے لیے جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آبادی کا کنٹرول مغرب سے درآمد شدہ ایجنڈا ہے جو ملک پر قرضوں کے ساتھ مشروط ہو کر آتا ہے، جس کا اصل مقصد مسلم ممالک کی آبادی کو کم زور کرنا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمران طبقے ملک کو غیر ملکی مافیاز کے حوالے کرنے کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں اور اپنی معاشی ناکامیوں کا بوجھ قوم پر ڈال رہے ہیں۔
اسلامی فقہ میں ضبطِ تولید کی حدود اور شرائط
اسلامی شریعت کی گہری حکمت اور منشا اس کے اس بنیادی حکم میں پوشیدہ ہے کہ نکاح کا ایک اہم مقصد توالد و تناسل ہے، اور اولاد کی کثرت مطلوب و محمود ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ترغیب سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کیا جائے۔ توالد محض ایک انفرادی یا عارضی عمل نہیں، بلکہ امت کی قوت اور فخر کا ذریعہ ہے۔
جبری فیملی پلاننگ کا مروّجہ منصوبہ بنیادی طور پر معاشی خوف، یعنی اس اندیشے پر مبنی ہے کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا۔فقہاء کرام نے اس نیت یا خطرے کے پیش نظر کی جانے والی فیملی پلاننگ کو دو ٹوک الفاظ میں حرام قرار دیا ہے ۔
قرآنِ پاک کا ابدی اور دو ٹوک حکم ہے:
“لا تقتلوا اولادک خشیتہ املاق” (اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو)
فقہی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر آج کی فیملی پلاننگ معاشی خوف کے تحت کی جائے، تو یہ زمانہ جاہلیت میں رزق کی کمی کے خدشہ سے اپنی اولاد کو قتل کرنے کے تصور کی محض ایک مہذب تصویر ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی جاندار مخلوق پیدا کی ہے، سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے، اس لیے اس ضمانت پر حکومتی یا انفرادی سطح پر عدم اعتماد ایمان کی کمزوری اور شرعی اصولوں سے انحراف کا مظہر ہے۔ تحدیدِ نسل کی پالیسی کو جو چیز شرعاً ناجائز بناتی ہے، وہ دراصل اس تصور میں پوشیدہ ہے کہ یہ کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا درحقیقت نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے۔
اسلامی فقہ میں ضبطِ تولید کے طریقوں کو ان کے نتیجے کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے :
١ ۔ ایسا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا جس سے توالد و تناسل کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے، مثلاً نس بندی یا آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا، شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔ یہ عمل منشائے شریعت کے خلاف، کفرانِ نعمت اور نظامِ خداوندی میں مداخلت کے مترادف ہے۔
٢ ۔ شریعت صرف چند سنگین اَعذار کی بنا پر عارضی مانعِ حمل تدابیر کی اجازت دیتی ہے ۔ یہ اجازت صرف وقتی تدابیر کے لیے ہے، اور سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جب چاہیں توالد و تناسل کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جا سکے ۔ قدیم فقہاء نے صرف ’عزل‘ (Coitus Interruptus) کا ذکر کیا تھا، لیکن جدید علماء نے اعذار کی موجودگی میں جدید آلات اور دواؤں کے استعمال کو بھی جائز قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ دائمی نہ ہوں۔
۳۔ انسانی حقوق، اخلاقیات اور شریعت کی روشنی میں
جبری خاندانی منصوبہ بندی، خواہ وہ براہ راست طاقت کے ذریعے ہو یا انتظامی دباؤ پر مبنی رضامندی کی صورت میں، انسانی حقوق، اخلاقیات اور شریعت کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انسانی وقار اور جبری رضامندی
تولیدی حقوق کی بین الاقوامی تعریف بھی اس بنیادی حق کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر فرد توالد و تناسل سے متعلق فیصلے امتیازی سلوک، جبر اور تشدد سے پاک ہو کر کرے۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے ہر وہ آزادی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو یا اخلاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے، وہ ناقابل قبول ہے۔ اسی اصول کو توالد و تناسل کے حق پر منطبق کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے افراد کو عارضی تدابیر کی حد تک ذاتی اختیار دیا ہے، مگر ریاست یا کوئی ادارہ مستقل یا جبری تحدیدِ نسل مسلط کر کے نہ صرف فرد کے تولیدی حقوق کی پامالی کرتا ہے، بلکہ منشائے شریعت کے خلاف بھی جاتا ہے۔
غیر شرعی عائلی قوانین اور ریاستی مداخت
سابق صدر ایوب خان کے دورِ اقتدار میں مغربی تہذیب کی دل دادہ خواتین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نافذ کردہ عائلی قوانین، جن کی کئی دفعات شریعتِ اسلامیہ سے متصادم تھیں، آج تک نافذ ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے مداخلت فی الدین کی ابتدا کی اور شریعت کے احکامات میں تحریف کی بنیاد ڈالی۔ جب تک ہم رُسوائے زمانہ ان غیر شرعی دفعات کو کالعدم قرار نہیں دیتے، ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ جب ایک ریاست اپنے بنیادی نظریاتی فریضے سے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرے، تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جبر کے ذریعے عوامی زندگی کے انتہائی نجی پہلوؤں میں مداخلت کرے۔
معاشی بحران اور آبادی کا مسئلہ
جبری فیملی پلاننگ کے حامیوں کا بنیادی استدلال معاشی بحران اور وسائل پر بڑھتا ہوا بوجھ ہے، مگر معاشی اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بیانیہ سراسر ایک مغالطہ ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ آبادی کی کثرت نہیں، بلکہ سنگین اور طویل المدتی انتظامی بدانتظامی، سیاسی عدم استحکام اور حکمران طبقات کی نالائقی ہے ۔
ملک کا معاشی جسم جس شدید زخم کا شکار ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف مس منیجمنٹ اور کرپشن ہے۔ مئی 2025ء تک کی رپورٹس کے مطابق پاکستان مجموعی طور پر تقریباً چورانوے ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ جب انتظامی نقصانات کا حجم مجموعی ترقیاتی بجٹ سے بھی تجاوز کر جائے، تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ معیشت کی تباہی کا سبب آبادی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی نا اہلی ہے۔ اس خسارے کو بلاوجہ کے ٹیکس اور جبری فیسوں کی صورت میں عوام سے وصول کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آج ایک سفید پوش آدمی اپنی عزت کا بھرم رکھنے سے قاصر ہے۔
سیاسی خلفشار اور قرضوں کا چنگل
2018ء کے بعد سے پاکستانی سیاست اور معیشت کچھ زیادہ ہی بےیقینی اور بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ نام نہاد پاپولر سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے جنگ اور رسہ کشی نے ملک کو ایک ایسے کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمرانوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر ملک کو نئے بحران کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتی ہے، اور غریب عوام مہنگائی، افراط زر اور ٹیکسز کے ذریعے بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ تمام مقتدر حلقے، خواہ وہ فوجی حکمران رہے ہوں یا سویلین، ملکی معیشت کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ کر تباہ کرنے اور عوام پر ظلم و جبر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک ایجنڈے کے تحت ملک و قوم کو ملکی و غیر ملکی مافیاز کے حوالے کرنے کی کوشش ہے۔ معاشی خوف کی بنیاد پر تحدیدِ نسل کا جواز تراشنا دراصل ان حقیقی معاشی مجرموں کو بچانے کی کوشش ہے۔
فلاحی ریاست کا اسلامی تصور
اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ریاست مدینہ کے اصولوں پر ہے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست آبادی کو بوجھ نہیں بلکہ سب سے قیمتی اور اہم انسانی سرمایہ (Human Capital) سمجھتی ہے۔ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے، نہ کہ ان کی تعداد کو کم کرنے میں مصروف ہو جائے۔ پاکستان کی آبادی کی کثرت اس کے جغرافیائی اور نظریاتی وجود کا ایک تزویراتی (Strategic) اثاثہ ہے ۔
عالمی آبادیاتی بحران اور ترقی یافتہ ممالک کی پشیمانی
جبری نفاذ کی پالیسی اپنانا دراصل ایک آنے والی آبادیاتی تباہی کی بنیاد رکھنا ہے، جس سے دنیا کے کئی ممالک آج پشیمان ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے سخت گیر پالیسیاں اپنائیں، آج طویل مدتی اقتصادی اور سماجی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔
چین نے ستر کی دہائی میں سخت گیر ’ایک بچہ پالیسی‘ نافذ کی تھی، لیکن اب اسے ختم کر کے جوڑوں کو دو بچوں کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ اس پالیسی کو ختم کرنے کا بنیادی مقصد معیشت پر محدود آبادی کے منفی اثرات کو کم کرنا تھا۔ دانش وروں نے اس پالیسی کو فرسودہ قرار دیا ہے اور اسے چین میں مزدوروں کی تعداد میں کمی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ماہرین کے مطابق، دہائیوں پرانی معاشی و سماجی تبدیلیوں سے چین میں ایک ایسی نئی نسل سامنے آئی ہے جن کے لیے شادی اور بچے سنبھالنا اہمیت نہیں رکھتا۔ عالمی سطح پر آبادی کنٹرول کرنے کے اقدامات کے منفی اثرات سامنے آ چکے ہیں۔ دنیا کے نصف ممالک میں نوجوانوں کی تعداد کم اور بوڑھوں کی تعداد بڑھ چکی ہے ۔ تقریباً 49 ممالک اس وقت آبادی کی قلت (Population Shortage) کا شکار ہیں اور اپنی کم ہوتی افرادی قوت کو لے کر پریشان ہیں۔ اس فہرست میں صف اول کے ترقی یافتہ ممالک کی موجودگی یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ نوجوانوں کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
پاکستان کے پاس ایک بہت بڑی نوجوان قوت موجود ہے، اور اگر اس قوت کو وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم، اور روزگار کے ذریعے منظم کر لیا جائے، تو یہی آبادی ملک کے معاشی انقلاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
فلاحی ریاست کا حقیقی نفاذ
اگر حکومتیں فلاحی ریاست کا درجہ حاصل کرنا چاہتی ہیں، تو انھیں آبادی پر قابو پانے کی بجائے فلاحی ذمہ داریوں، انصاف کی فراہمی، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر اسلام کا نظامِ عدل قبول کیا جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے، کیوں کہ نظامِ عدل کی خرابی ہی معاشی مسائل کی جڑ ہے۔
مذکورہ دلائل فیملی پلاننگ کے جبری نفاذ کو شرعاً، فکراً اور معیشتاً قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ یہ نہ صرف قرآن کے دو ٹوک حکم “لا تقتلوا اولادک خشیتہ املاق” کے خلاف ہے، بلکہ یہ حکمرانوں کی جانب سے اپنی ناکامیوں اور سیاسی خلفشار کا بوجھ غریب عوام پر ڈالنے کی ایک ظالمانہ کوشش ہے۔ عالمی تجربات ثابت کرتے ہیں کہ جبری تحدیدِ نسل کی پالیسیاں طویل المدتی معاشی اور آبادیاتی تباہی کا باعث بنتی ہیں، پھر وقت آنے پر ممالک پشیمان ہوتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کو جبری نافذ کرنے کے تمام ارادوں کو فی الفور منسوخ کرے۔ ملکی مسائل کا واحد اور پائےدار حل اسلامی نظام کو قبول کرنا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ کا بنیادی مقصد پورا ہو سکے۔ اسی طرح توجہ آبادی کو محدود کرنے کے بجائے ناقص حکمرانی، ہزاروں ارب کے گردشی قرضوں کے خاتمے، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو دور کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی کثیر آبادی کو ایک فعال اور تربیت یافتہ انسانی سرمائے میں تبدیل کرنے کے لیے جامع تعلیمی، معاشی اور انصاف پر مبنی منصوبے شروع کرے، تاکہ یہ ملک عالم اسلام کی شوکت ایمانی کا گہوارہ بن سکے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ رزق کے خوف کو دل سے نکال کر اللہ کی ضمانت پر بھروسہ کریں اور حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ظلم و جبر کی روش کو ترک کر کے نظامِ عدل اور فلاحی ریاست کے تقاضوں کو پورا کریں