خوف: ایک خاموش رکاوٹ

خوف انسانی زندگی کا ایک فطری اور ناگزیر جذبہ ہے جو انسان کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصان سے بچانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، تاہم جب یہی خوف اپنی فطری حدود سے تجاوز کر کے انسان کی سوچ اور عمل پر حاوی ہو جائے تو یہ ایک مثبت احساس کے بجائے ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ خوف دراصل عدمِ تحفظ، غیر یقینی حالات، ناکامی کے اندیشوں، جان و مال کے نقصان، سماجی ردِعمل، تنقید اور مستقبل کے خدشات سے جنم لیتا ہے۔ انسان عموماً اس وقت خوف کا شکار ہوتا ہے جب وہ خود کو حالات کے مقابلے میں کمزور یا بے بس محسوس کرتا ہے یا جب اس کے ماضی کے منفی تجربات اس کے حال پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ بچپن میں سخت تربیت، خوف پر مبنی تعلیم، والدین یا اساتذہ کی غیر متوازن سختی، مسلسل موازنہ، ناکامی پر ذلت آمیز رویے اور جذباتی عدم توجہی انسان کے اندر خوف کو اس حد تک راسخ کر دیتی ہیں کہ وہ بڑے ہو کر بھی خود اعتمادی سے محروم رہتا ہے۔

یہ خوف رفتہ رفتہ انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کے فیصلوں، رویوں اور صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے۔ خوف کا دائرہ صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ جب یہی کیفیت اجتماعی سطح پر پھیل جائے تو پورا معاشرہ اس کے منفی اثرات کی زد میں آ جاتا ہے۔ خوف زدہ معاشرے میں لوگ سوال کرنے، اختلافِ رائے رکھنے، حق مانگنے اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں خاموشی کو دانائی اور اطاعت کو فہم کا درجہ دے دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جمود، روایت پرستی اور استحصالی نظام مضبوط ہو جاتے ہیں۔ طاقتور طبقات خوف کے اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کمزور طبقات اپنی بنیادی آزادیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور بعض اوقات مذہبی سطح پر بھی خوف کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو قابو میں رکھا جا سکے اور ان کی سوچ کو ایک مخصوص دائرے تک محدود رکھا جائے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ سچ بولنے سے کترانے لگتے ہیں اور معاشرے میں دوغلا پن، منافقت اور ظاہرداری کو فروغ ملتا ہے۔ فرد اپنی اصل رائے چھپانے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس کے باعث ذہنی دباؤ، اضطراب اور اخلاقی زوال جنم لیتا ہے۔ خوف انسان کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس لیے بنتا ہے کہ کامیابی کا تعلق جرات، محنت، مسلسل کوشش اور ناکامی کو سیکھنے کے عمل کے طور پر قبول کرنے سے ہے، جبکہ خوف انسان کو محفوظ دائرے تک محدود کر دیتا ہے۔ خوف زدہ انسان نئے مواقع سے گریز کرتا ہے، خطرہ مول لینے سے ڈرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ تعلیمی میدان میں امتحان کا خوف طالب علم کو علم کے فہم کے بجائے محض یاد کرنے تک محدود کر دیتا ہے۔ کاروباری دنیا میں نقصان کا خوف تاجر کو جدت، وسعت اور ترقی سے روکتا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد تنقید یا برطرفی کے خوف سے اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد ردِعمل کے خوف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتے ہیں۔ اس طرح خوف نہ صرف انسان کے عمل کو محدود کرتا ہے بلکہ اس کی سوچ کو بھی قید کر دیتا ہے۔ وہ صرف انہی امکانات پر غور کرتا ہے جو اسے محفوظ محسوس ہوں، حالانکہ ترقی ہمیشہ غیر یقینی راستوں سے ہو کر گزرتی ہے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیاں اور نمایاں کامیابیاں خوف سے فرار کے نتیجے میں نہیں بلکہ خوف کا سامنا کرنے کے نتیجے میں ممکن ہوئیں۔ کامیاب افراد نے خوف کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا بلکہ اسے پہچانا، سمجھا اور اس پر قابو پایا۔ حقیقت یہ ہے کہ خوف کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ یہ انسانی بقا سے جڑا ہوا جذبہ ہے، تاہم اس پر قابو پانا اور اسے مثبت سمت میں استعمال کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ جب انسان خوف کے باوجود قدم اٹھاتا ہے تو اس کا اعتماد بڑھتا ہے، تجربہ حاصل ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ خوف کی شدت کم ہوتی جاتی ہے۔ اجتماعی سطح پر اگر افراد خوف سے آزاد ہو جائیں تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو باشعور، متحرک اور ترقی پسند ہوتا ہے، جہاں اختلافِ رائے کو برداشت کیا جاتا ہے، سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انصاف و ترقی کے نئے امکانات جنم لیتے ہیں۔ اس کے برعکس خوف زدہ معاشرہ ذہنی غلامی کا شکار رہتا ہے جہاں سوچ محدود، ترقی کی رفتار سست اور مستقبل غیر یقینی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہے کہ خوف بیک وقت انسان کا محافظ بھی ہے اور دشمن بھی، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اسے کس حد تک اپنے اوپر حاوی ہونے دیتا ہے۔ اگر خوف انسان کو احتیاط، تیاری اور شعور عطا کرے تو یہ مفید ہے، لیکن اگر یہی خوف انسان کو خاموش، مفلوج اور بے عمل بنا دے تو یہ فرد، معاشرہ اور ترقی تینوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرے اور کامیاب فرد کے لیے ضروری ہے کہ خوف کو پہچانا جائے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور اس پر قابو پا کر آگے بڑھا جائے، کیونکہ خوف کے اُس پار ہی خود اعتمادی، وقار اور حقیقی کامیابی کا راستہ موجود ہے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں