بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات آئندہ سال فروری میں رمضان سے قبل منعقد کیے جائیں گے۔ یہ اعلان اُس دن کیا گیا جب شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہوا، ایک ایسا دن جسے کئی حلقے “بنگلہ دیش کی دوسری آزادی” سے تعبیر کر رہے ہیں۔
محمد یونس نے دارالحکومت ڈھاکہ میں منعقدہ ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “بہت سالوں سے ہم میں سے کوئی ووٹ نہیں دے سکا۔ اس بار ہم سب ووٹ ڈالیں گے۔ کوئی پیچھے نہیں رہے گا۔ تاکہ ہم سب فخر سے کہہ سکیں: ‘میں نے ووٹ دیا تاکہ ملک کو ایک نئے بنگلہ دیش کی طرف لے جا سکوں’۔”
گزشتہ برس 5 اگست کو سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ بھارت روانہ ہو گئی تھیں جب ان کے خلاف طلبہ کی قیادت میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔ اس احتجاج کا آغاز سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوا تھا، جو بعد میں حکومتی تبدیلی کے مطالبے میں بدل گیا۔
حسینہ کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، سیاسی مخالفین کے قتل، جبری گمشدگیوں اور جیلوں میں تشدد جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ “عوامی لیگ” کی حکومت پر ملک بھر میں اختلافِ رائے کو سختی سے کچلنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ سینکڑوں افراد کو خفیہ جیلوں میں غائب کر دیا گیا۔ ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوا اور عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گزشتہ ایک سال میں سینکڑوں کارکنان بغیر مقدمے کے زیرِ حراست رہے۔
شیخ حسینہ کے جانے کے بعد محمد یونس کو عبوری حکومت کی سربراہی سونپی گئی تھی، جنہوں نے فوری طور پر سیاسی اصلاحات کا وعدہ کیا۔ ابتدا میں جون 2026 کو ممکنہ الیکشن کی تاریخ کے طور پر تجویز کیا گیا، لیکن سیاسی جماعتوں
اور سول سوسائٹی کے دباؤ کے باعث اب انتخابات فروری 2026 میں رمضان سے قبل کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈھاکہ میں تقریب کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) جماعتِ اسلامی، اور نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے نمائندگان محمد یونس کے ہمراہ اسٹیج پر موجود تھے جو عبوری حکومت کی حمایت میں ایک غیرمعمولی منظر تھا۔
اس موقع پر محمد یونس نے “جولائی اعلامیہ” بھی پڑھ کر سنایا، جس میں طالبعلموں کی قربانیوں کو آئینی حیثیت دینے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ اعلامیہ اُن اصلاحات کی بنیاد ہے جن کا مقصد ملک کو ایک نئے، شفاف اور جمہوری مستقبل کی طرف لے جانا ہے۔
سیاسی مبصرین اس پیش رفت کو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کر رہے ہیں کہ سیاسی استحکام اور امن و امان کی بحالی کے لیے حکومت کو مزید چیلنجز کا سامنا رہے گا۔