دگنی ذمہ داری اٹھانے والی عورت کو دگنا احترام دیں

عورت کا اپنا ایک نام ہوتا ہے۔ ایک شناخت ہوتی ہے۔ اگر وہ زوجہ فلاں یا بنت فلاں یا ام فلاں کے نام سے پہچانی جاتی ہے اس کے باوجود ایک صحت مند سوچ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ بھی ایک پورے انسان کی طرح اپنی انفرادی شناخت رکھے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے جب پرندہ اپنے پر کتروا کر نہ صرف مطمئن رہے بلکہ قدرت نے اسے جو پرواز کی قوت دی ہے اس سے زبردستی محروم رکھے جانے کو بھی نعمت سمجھے۔ بانو قدسیہ صاحبہ نے لکھا تھا محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں بیٹھے رہنے کا نام یے۔ جب پنجرہ مقفل ہو اور پرندہ کہے کہ میرے مالک کو مجھ سے بڑی محبت ہے وہ میری حفاظت کی خاطر مجھے مقفل رکھتا ہے تو یہ پرندے کی نادانی کہی جا سکتی یے۔

عورت کی بنیادی اور مرکزی ذمہ داری گھر سنبھالنا ہے۔ اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ جب وہ ایک اضافی ذمہ داری لیتی ہے کہ گھر کے معاش کو بہتر کرنے میں بھی ہاتھ بٹاتی ہے تو اس عورت کو حوصلہ افزائی کی اور سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کو تو زیادہ عزت ملنی چاہئے کہ اس نے وہ بوجھ بھی اٹھایا جو یہ آ سانی سے عورت ہونے کا عذر پیش کر کے نہ اٹھاتی۔ اپنی مرضی سے دن میں جب چاہتی نیند پوری کرتی۔
گھر کے کام کاج اتنے ہوا ہوتے نہیں ہیں جتنے بنا کر پیش کئے جاتے ہیں ۔ ملازمت کرنے کے لئے قابلیت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان دگنا بوجھ اٹھانے والیچ کی ہمت بندھانے ۔ انکے پیروں کے چھالوں پر مرہم لگاتے۔لیکن یہاں تو چلن ہی الٹا ہے۔

اہلیت،، صلاحیت اور قابلیت رکھنے والی خواتین کو لبرل، فیمینسٹ کہہ کر حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ جیسے انہوں نے گھر سے باہر گھومنے کے لئے ملازمت کو آ ڑ بنایا ہوا ہے۔ یہ تو سارا دن آ وارہ گردیاں کر کے فریش فریش گھر آ تی ہیں اور سارا دن گھر میں اپنی مرضی سے آ رام آ رام سے اپنے گھر کے سکون میں رہنے والیاں تھکی ہاری ہوتی ہیں ۔ عجیب الٹا دستور بنایا ہوا ہے ۔ گھر میں رہنا آ سان ہے، گھر کے روز مرہ کام کوئی غیر معمولی سکل نہیں مانگتے ۔ بچوں کو کوالٹی ٹائم چاہیئے ہوتا ہے۔ عورتوں کی مرضی چاہے وہ گھر بیٹھیں چاہے خاندان کی کفالت میں ہاتھ بٹائیں ۔

لیکن پلیز کام کرنے والی عورت اصل میں گلوریفائی کرنے کی مستحق ہے۔ اس نے مشکل راستہ چنا ہے۔ اس کے گھر کے مردوں کو میں خراج تحسین پیش کروں گی کہ انہوں نے ایک عورت سے انکی شناخت نہیں چھینی۔ اسے کم عقل ، بے وقوف سمجھ کر بزعم خود اس کے راستے کھوٹے نہیں کئے۔ اسے ایک پروقار با اعتماد شخصیت بننے میں مدد دی۔ ان مردوں کو میں سیلوٹ کرتی ہوں۔ انہوں نے اپنی سرپرستی میں موجود عورتوں کو دبایا نہیں بلکہ نکھارا۔

یہ بحث نہیں کہ عورت روزی کماتی ہے یا صرف روٹی پکاتی ہے سب عورتیں بچوں کی خاطر کیریئر بریک بھی لیتی ہیں یا ساتھ ساتھ سب ذمہ داریاں نبھاتی ہیں ۔ یہ عورتیں زیادہ قابل ہیں ، زیادہ اہل ہیں ، زیادہ با صلاحیت ہیں ۔ یہ کسی پر بوجھ نہیں ہیں ۔ یہ رفیقہ حیات ہیں صحیح معنوں میں ۔

یہ اتنی لمبی کہانی اس لئے لکھنی پڑی کہ کچھ لوگ الٹے راستے پر چل نکلے ہیں ۔ گھر بیٹھی عورت ستی ساوتری ہے اور دگنی ذمہ داری نبھانے والی عورت حقیر، لبرل، فیمینسٹ ہے۔ مجھے نہیں پتہ فیمینسٹ کون ہوتی ہے۔ اس کی کیا سوچ ہوتی ہے۔

لیکن خدا کا واسطہ ہے اپنی دگنی محنت کرنے والی قابل عورت کو اس کا جائز مقام اور احترام ضرور دیں ۔ شریف وہ نہیں ہے جس کو موقع نہیں ملا۔ شریف وہ ہے جس نے سارے موقعے ہوتے ہوئے بھی انکا استعمال نہیں کیا۔ اپنا وقار قائم رکھا۔
جس عورت کا نام سب جانتے ہیں وہ کردار میں نیچے اور جس نے اپنا نام بھی مستور رکھا وہ با کردار۔ یہ کوئی criteria نہیں ہے کسی عورت کے کردار کی رینکنگ کا۔ سوچ کی درستگی بہت ضروری ہے ۔ میرے لئے شکر کا مقام۔ہے کہ میری زندگی میں موجود مردوں نے مجھ پر فخر کیا اور میں نے انکے فخر کو قائم رکھا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں