صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک بار پھر اپنے پہلے دورِ حکومت کی پالیسی کو زندہ کرتے ہوئے 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پر پابندی لگا دی ہے، جبکہ 7 دیگر ممالک کے لیے سخت سفری شرائط رکھی گئی ہیں۔ یہ پابندی پیر کی صبح 12:01 بجے سے نافذ ہوگی۔
پابندی والے ممالک میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔جبکہ برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا کے شہریوں پر سخت شرائط عائد ہوں گی۔
صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو میں کہا کہ یہ اقدام حالیہ دنوں کولوراڈو کے شہر بولڈر میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد کیا گیا ہے۔ تاہم، حملہ آور کا تعلق مصر سے تھا، جو اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک اپنے شہریوں کی جانچ اور تصدیق کے لیے مناسب نظام نہیں رکھتے یا وہ اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر کیا، جو ویزا کی مدت ختم ہونے کے باوجود امریکہ میں رکنے والے افراد کے بارے میں ہے۔
افغانستان شامل کرنے پر کچھ حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے، کیونکہ افغان عوام نے دو دہائیوں تک امریکی افواج کے ساتھ تعاون کیا۔ تاہم خصوصی ویزے والے افغان شہریوں کو اس پابندی سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
ہیٹی کو بھی پہلی بار اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور ہیں اور وہ معلومات فراہم نہیں کرتے جس سے یہ جانچا جا سکے کہ کوئی شخص امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ایران، لیبیا، سوڈان اور یمن جیسے ممالک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں خانہ جنگی یا سیاسی عدم استحکام ہے، جس کی وجہ سے امریکی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مہاجرین کی مدد کرنے والے اداروں نے اس پابندی کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سکیورٹی کے بجائے امیگرنٹس کے خلاف تعصب پر مبنی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ پابندی ایک نئے صدارتی حکم کے تحت لگائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ممالک جو امریکہ کے خلاف “مخالف رویہ” رکھتے ہیں یا ان کے شہری سکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، ان پر نظرثانی کی جائے۔
یاد رہے کہ 2017 میں بھی ٹرمپ نے مسلم اکثریتی ممالک پر سفری پابندی عائد کی تھی۔