پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی آفات کا بار بار نشانہ بنتا رہا ہے۔ کبھی زلزلے، کبھی خشک سالی اور کبھی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب عوام کے لیے اذیت اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ شدید بارشوں اور ندی نالوں کے طغیانی کی وجہ سے بونیر، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کے علاقوں میں پانچ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں اور بونیر میں تو پورا گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔پاکستان حالیہ برسوں میں بار بار قدرتی آفات کا شکار رہا ہے۔ مون سون کی بارشیں، بادل پھٹنے، دریاؤں میں طغیانی اور سیلابی ریلے ہر سال ہزاروں خاندانوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔پختونخواہ ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ہم نے بطور قوم قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کوئی مؤثر نظام بنایا ہے؟
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات جھیل رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ، غیر متوازن بارشیں، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور بادل پھٹنے کے واقعات اسی تبدیلی کا شاخسانہ ہیں۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ آفات مزید شدت اختیار کرسکتی ہیں اور فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہمیں انتہائی مہنگی پڑ رہی ہے۔
جب بھی انسان نے فطرت سے بے وفائی کی، اس کا توازن بگاڑا اور اس کی نعمتوں کی ناقدری کی، فطرت نے اپنے سخت اور الارمنگ ردعمل کے ذریعے انسان کو اس کی اوقات یاد دلائی۔ زمین، دریا، پہاڑ اور فضائیں یہ سب فطرت کی امانت ہیں، جنہیں ہم نے اپنی لالچ اور خود غرضی کے ہاتھوں تباہ کر دیا ہے۔ آج جنگلات کا خاتمہ، بے تحاشہ آلودگی، دریاؤں کی آلودگی، گلیشیئرز کا پگھلنا اور زمین کی کٹائی اسی کا نتیجہ ہے۔فطرت کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ زمین اور آسمان کیوں بے قابو ہو کر تباہی مچا رہے ہیں؟ بارشیں برکت کی بجائے زحمت کیوں بن گئیں؟ پہاڑوں سے بہنے والے چشمے زندگی دینے کے بجائے موت بانٹنے کیوں لگے؟ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے فطرت کے ساتھ اپنے رشتے کو توڑ دیا ہے۔
آج ہمیں کلائوڈ برآسٹ کی صورت میں ایک نئے عذاب کا سامنا ہے جسے بادل پھٹنا بھی کہتے ہیں۔بارش ایک ہی جگہ پر اس شدت سے برستی ہے کہ زمین اور انسان کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا۔ چند منٹوں میں پانی کا ایسا ریلا آتا ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ مکانات، کھیت، پل، جانور اور انسان سب اس کی نذر ہو جاتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو یہ فطرت کا انتقام نہیں بلکہ انسان کی اپنی غلطیوں کا شدید ردعمل ہے۔ زمین کے وسائل کی بے جا لوٹ کھسوٹ، ماحولیاتی ناانصافی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی یہی سب اس عذاب کے بنیادی اسباب ہیں۔ ہم نے فطرت سے دوری اختیار کر لی، اور فطرت نے ہمیں اپنی اصل قوت دکھانا شروع کر دی۔
فطرت انسان کے لیے ایک انمول عطیہ ہے۔ زمین، آسمان، ہوا، پانی، پہاڑ، دریا اور سبزہ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی زندگی کو سہل بناتی ہیں۔ اگر انسان ان کا احترام کرے اور ان سے ہم آہنگ زندگی بسر کرے تو فطرت ہمیشہ اس کے ساتھ مہربان رہتی ہے۔ لیکن جب انسان نے فطرت کو نظرانداز کیا اس کی قدر نہ کی اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس کا استحصال شروع کیا تو یہی فطرت اس پر قہر بن کر ٹوٹنے لگی۔بارشیں، سیلاب، بادل پھٹنے کے واقعات، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور آسمانی بجلی گرنے جیسے سانحات ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ فطرت ہم سے ناراض ہے۔ یہ سب کچھ محض سائنسی یا ماحولیاتی عوامل نہیں بلکہ انسان کے رویوں کا نتیجہ ہے۔
ایسے حالات میں محض انفرادی اصلاح کافی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اجتماعی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک پوری قوم اجتماعی طور پر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے، فطرت کے ساتھ کیے گئے ظلم پر نادم ہو اور اس کے ازالے کے لیے اقدامات کرے۔ جنگلات کا تحفظ کیا جائے،درخت کاٹنے کے بجائے شجرکاری کو قومی مہم بنایا جائے۔ تمام تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی لازمی تربیت دی جائے تاکہ ہنگامی صورتحال میں وہ خود بھی محفوظ رہ سکیں اور دوسروں کو بھی بچا سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ دریائی گزر گاہوں کے ساتھ اور ان کے اندر تعمیرات پر پابندی ہونی چاہئے۔ دریاؤں اور برساتی نالوں کے قریب رہائشی اور کاروباری تعمیرات پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ اچانک آنے والے ریلے انسانی جانوں کا نقصان نہ کر سکیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق آفات اور مصیبتوں کے وقت سب سے مؤثر عمل توبہ اور استغفار ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ جب انسان اجتماعی طور پر توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور زمین کو سکون بخشتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کرنا چاہیے تاکہ فطرت کا بگڑا ہوا توازن دوبارہ بحال ہو اور زمین ہمارے لیے ایک پرامن مسکن بن سکے۔فطرت اور انسان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ فطرت سے جنگ کرنا دراصل اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر توبہ کریں، اپنی زندگیوں اور نظام کو فطرت کے مطابق ڈھالیں، اور آئندہ ایسی روش نہ اپنائیں جس سے فطرت کا توازن بگڑے۔ یہی راستہ ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے اور یہی وہ روش ہے جو فطرت کو دوبارہ ہماری دوست اور مہربان بنا سکتی ہے ۔